قرآن کریم > الكهف
الكهف
•
فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا
چنانچہ دونوں روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اُن صاحب نے کشتی میں چھید کر دیا۔ موسیٰ بولے : ’’ارے کیا آپ نے اس میں چھید کر دیا تاکہ سارے کشتی والوں کو ڈبو ڈالیں؟ یہ توآپ نے بڑا خوفناک کام کیا۔‘‘
•
قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا
انہوں نے کہا :’’ کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟‘‘
•
قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِيْ بِمَا نَسِيْتُ وَلَا تُرْهِقْنِيْ مِنْ اَمْرِيْ عُسْرًا
موسیٰ نے کہا : ’’ مجھ سے جو بھول ہوگئی، اس پر میری گرفت نہ کیجئے، اور میرے کام کو زیادہ مشکل نہ بنائیے۔‘‘
•
فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غُلامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا
وہ دونوں پھر روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ اُن کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی تو اُن صاحب نے اُسے قتل کر ڈالا۔ موسیٰ بول اُٹھے : ’’ ارے کیا آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ہلاک کر دیا جبکہ اُس نے کسی کی جان نہیں لی تھی جس کا بدلہ اُس سے لیا جائے؟ یہ تو آپ نے بہت ہی بُرا کام کیا !‘‘
•
قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا
اُنہوں نے کہا: ’’ کیامیں نے آپ سے نہیں کیا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کر سکیں گے؟‘‘
•
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍۢ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِيْ ۚ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّىْ عُذْرًا
موسیٰ بولے : ’’ اگر اَب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے۔ یقینا آپ میری طرف سے عذر کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔‘‘
•
فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا
چنانچہ وہ دونوں پھر روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس پہنچے تو اُس کے باشندوں سے کھانا مانگا تو اُن لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہیں ایک دیوار ملی جو گراہی چاہتی تھی، اُن صاحب نے اُسے کھڑا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا : ’’اگر آپ چاہتے تو اس کام پرکچھ اُجر ت لے لیتے۔‘‘
•
قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا
انہوں نے کہا : ’’ لیجئے میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آگیا۔ اب میں آپ کو اُن باتوں کا مقصد بتائے دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا
•
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
جہاں تک کشتی کا تعلق ہے، وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اُس میں کوئی عیب پیدا کردوں ، (کیونکہ) ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین کر رکھ لیا کرتا تھا
•
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَآ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا
اور لڑکے کا معاملہ یہ تھا کہ اُس کے ماں باپ مومن تھے، اور ہمیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ یہ لڑکا اُن دونوں کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے