May 18, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 72

قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا 

انہوں نے کہا :’’ کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟‘‘

 آیت ۷۲:   قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا:   «اس نے کہا: میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟»

            اس قصہ میں مذکور تین واقعات کے حوالے سے ایک اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اللہ کے جن احکام کے مطابق اس کائنات کا نظام چل رہا ہے، ان کی حیثیت تشریعی (شریعت سے متعلق) نہیں بلکہ تکوینی (کائنات کے انتظامی امور سے متعلق) ہے۔ ان احکام کی تنفیذ کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ کی رائے یہ بھی ہے کہ اس مقصد کے لیے اولیاء اللہ کی ارواح کو بھی ملائکہ کے طبقہ اسفل میں شامل کر دیا جاتا ہے اور وہ بھی فرشتوں کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ میں حصہ لیتے ہیں۔ بہر حال ان تکوینی احکام کی تعمیل کے نتیجے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں ہم ان کے صرف ظاہری پہلوؤں کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی واقعہ کے پیچھے اللہ کی مشیت کیا ہے؟ اس کا ادراک ہم نہیں کر سکتے۔ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ یا کوئی چیز بظاہر جیسے دکھائی دے اس کی حقیقت بھی ویسی ہی ہو۔ ممکن ہے ہم کسی چیز کو اپنے لیے برا سمجھ رہے ہوں مگر اس کے اندر ہمارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو اچھا سمجھ رہے ہوں، وہ حقیقت میں اچھی نہ ہو۔ سورۃ البقرۃ میں ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں:   وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ.  «ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے»۔ چنانچہ ایک بنده مؤمن کو تفویض الامر کا رویہ اپنانا چاہیے کہ اے اللہ! میرا معاملہ تیرے سپرد ہے، میرے لیے جو تو پسند کرے گا میں اسی پر راضی رہوں گا، کیونکہ تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے:    بِیَدِکَ الْخَیْرُ.  (آل عمران: ۲۶)۔ 

UP
X
<>