May 18, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 79

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا 

جہاں تک کشتی کا تعلق ہے، وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اُس میں کوئی عیب پیدا کردوں ، (کیونکہ) ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین کر رکھ لیا کرتا تھا

 آیت ۷۹:  اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْْبَحْرِ:   «جہاں تک اُس کشتی کا معاملہ ہے تو وہ غریب لوگوں کی (ملکیت) تھی جو محنت کرتے تھے دریا میں»

             وہ بہت غریب اور نادار لوگ تھے، صرف وہ کشتی ہی ان کے معاش کا سہارا تھی۔ اس کے ذریعے وہ لوگوں کو دریا کے آر پار لے جاتے اور اس مزدوری سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔

               فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَآءَہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا:   «تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو پکڑ رہا تھا ہر کشتی کو زبردستی۔»

            بادشاہ ہر اُس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیتا تھا جو صحیح وسالم ہوتی تھی۔ ان نادار لوگوں کی کشتی بھی اگر بے عیب ہوتی تو بادشاہ ان سے زبردستی چھین لیتا۔ چنانچہ میں نے اس کا ایک تختہ توڑ کر اسے عیب دار کر دیا۔ اب جب بادشاہ اس عیب دار کشتی کو دیکھے گا تو اسے چھوڑ دے گا اور اس طرح ان کی روزی کا واحد سہارا ان سے نہیں چھنے گا۔ پوری کشتی چھن جانے کے مقابلے میں ایک تختے کا ٹوٹ جانا تو معمولی بات ہے۔ اس تختے کی وہ لوگ آسانی سے مرمت کر لیں گے اور یوں وہ کشتی ان کی روزی کا ذریعہ بنی رہے گی۔ لہٰذا وہ تختہ ان لوگوں کی بھلائی کے لیے توڑا گیا تھا نہ کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے۔ 

UP
X
<>