May 17, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 19

أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلاً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

چنانچہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور اُنہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، اُن کیلئے مستقل قیام کے باغات ہیں جو اُن کو پہلی مہمانی ہی کے طور پر دے دیئے جائیں گے، اُن اعمال کے صلے میں جو وہ کیا کرتے تھے

آیت ۱۹   اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی: ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے تو ان کے لیے باغات ہیں ٹھکانے کے طور پر۔‘‘

      (نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: ’’ابتدائی مہمان نوازی کے طور پر، ان کے اعمال کے بدلے میں ۔‘‘

      لغوی اعتبار سے’’نُزُل‘‘ کا تعلق نازل ہونے یا اترنے سے ہے۔ جو کوئی مہمان آپ کے دروازے پر آیا اور اپنی سواری سے اترا وہ ’’نَزِیل‘‘ ہے اور آپ نے موسم اور رواج کے مطابق فوری طور پر جو کچھ اس کو پیش کیا وہ نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) ہے۔ جبکہ باقاعدہ مہمان نوازی کے لیے لفظ ’’ضیافت‘‘ استعمال ہوتا ہے جو نُزُل کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ضیافت کا لفظ ’’ضیف‘‘ (مہمان) سے بنا ہے۔یعنی جب آپ اپنے مہمان کے لیے باقاعدہ قیام کا بندوبست کریں گے اوراس کے آرام و طعام کا اہتمام کریں گے، تب وہ ’’ضیف‘‘ کے درجے میں آئے گا۔اس مرحلے میں آپ اس کی مہمان نوازی کے لیے جو خاطر مدارات کریں گے وہ ’’ضیافت‘‘ کہلائے گی۔ چنانچہ آخرت کے حوالے سے جن باغوں اور نعمتوں کا ذکر قرآن میں عمومی طور پر آیا ہے ان کا درجہ دراصل اہل جنت کے لیے نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) کا ہے، جبکہ ان کی اصل ضیافت اس کے بعد ہو گی۔ اس ضیافت کے دوران جو نعمتیں اور آسائشیں اہل جنت کو مہیا کی جائیں گی ان کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا۔جیسا کہ ابھی حدیث بیان ہوئی ہے۔

UP
X
<>