May 13, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 38

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ

بیشک اﷲ اُن لوگوں کا دِفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں ۔ یقین جانو کہ اﷲ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتا

            اب ہمیں جن آیات کا مطالعہ کرنا ہے ان میں وارد احکام حضور کی دعوت و تحریک کی جدوجہد میں ایک نئے موڑ (turning point) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ وہی آیات ہیں جو ہجرت کے سفر کے دوران میں نازل ہوئی تھیں۔ (قبل ازیں آیت: ۱۱ کے ضمن میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کا حوالہ گزر چکا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئی تھیں) -- ان آیات کا مضمون اور مقام و محل اس پہلو سے بھی قابل غور ہے کہ سورۃ البقرۃ کے ۲۳ ویں رکوع میں یعنی تقریباً سورت کے وسط میں رمضان المبارک اور روزے کے احکام و فضائل کا ذکر ہے اور اس کے بعد دو رکوع (۲۴واں اور۲۵واں رکوع) قتال فی سبیل اللہ اورمناسک حج کے احکام پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی اس سورت کے تقریباً وسط میں دو رکوع مناسک حج پر مشتمل ہیں اور اس کے فوراً بعد اب قتال فی سبیل اللہ کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے اگرچہ سورۃ البقرۃ اور سورۃ الحج کی باہمی مشابہت بھی ظاہر ہوتی ہے لیکن ایک بہت اہم حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں مضامین (حج اور قتال فی سبیل اللہ) میں بہت گہرا ربط ہے۔ اس ربط اور تعلق کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ کعبۃ اللہ جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا وہ ان آیات کے نزول کے وقت مشرکین کے زیر تسلط تھا اور توحید کے اس مرکز کو انہوں نے شرک کا اڈّا بنایا ہوا تھا۔ چنانچہ اس وقت امت مسلمہ کا پہلا فرضِ منصبی یہ قرار پایا کہ وہ اللہ کے اس گھر کو مشرکین کے تسلط سے واگزار کرا کے اسے واقعتا توحید کا مرکز بنائے۔ لیکن یہ کام دعوت اور وعظ سے ہونے والا تو نہیں تھا، اس کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر حج بیت اللہ کے احکام کے ساتھ ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا تذکرہ ہے۔

 آیت ۳۸:  اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:   «یقینا اللہ مدافعت کرے گا اہل ایمان کی طرف سے۔»

            اس تحریک میں اب جو نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے اس میں مسلح تصادم نا گزیر ہے۔ چنانچہ آیت زیر نظر کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس رزم گاہ میں اہل ایمان خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ ان کی مدد اور نصرت کے لیے اور ان کے دشمنوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اللہ ان کی پشت پر موجود ہے۔

            اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ:   «اللہ بالکل پسند نہیں کرتا ہر بڑے خیانت کرنے والے، نا شکرے کو۔»

            یہ یقینا مشرکین مکہ کا تذکرہ ہے، جو ایک طرف خیانت کی انتہائی حدود کو پھلانگ گئے تو دوسری طرف ناشکری میں بھی ننگِ انسانیت ٹھہرے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی وراثت کے امین تھے۔بیت اللہ گویا ان لوگوں کے پاس ان بزرگوں کی امانت تھی۔ یہ گھر تو تعمیر ہی اللہ کی عبادت کے لیے ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم نے اس کی گواہی ان الفاظ میں دی تھی: رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ:   (ابراہیم: ۳۷) کہ پروردگار! میں اپنی اولاد کو اس گھر کے پہلو میں اس لیے بسانے جا رہا ہوں کہ یہ لوگ تیری عبادت کریں۔ پھر آپ نے اپنے اورا پنی اولاد کے لیے یہ دعا بھی کی تھی:  وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ . (ابراہیم) کہ پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو ُبت پرستی کی لعنت سے بچائے رکھنا۔ چنانچہ مشرکین ِمکہ نے اللہ کے اس گھر اور توحید کے اس مرکز کو شرک سے آلودہ کر کے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی نہیں کی تھی بلکہ حضرت ابراہیم کی متبرک امانت میں خیانت کا ارتکاب بھی کیا تھا۔

             دوسری طرف یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے اللہ کی نا شکری کے مرتکب بھی ہوئے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں مکہ کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ بیت اللہ کی وجہ سے ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی میدان میں ان کی اجارہ داری خانہ کعبہ ہی کے طفیل قائم ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شام (موسم گرما) اور یمن (موسم سرما) کے درمیان ان کے قافلے قبائلی حملوں اور روایتی لوٹ مار سے محفوظ رہتے تھے تو صرف اس لیے کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے۔ یہی وہ حقائق تھے جن کی طرف ان کی توجہ سورۃ القریش میں دلائی گئی ہے:  لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اِلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ   فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ  الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ:   «قریش کو مانوس کرنے کے لیے! انہیں سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے مانوس کرنے کے لیے! پس انہیں چاہیے کہ وہ (اس سب کچھ کے شکر میں) اِس گھر کے رب کی بندگی کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا، اور خوف میں امن بخشا۔»

            مگر اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے نا شکری کی انتہا کر دی۔ انہوں نے اللہ کی بندگی کے بجائے بت پرستی اختیار کی اور بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کے بجائے اسے بت خانے میں تبدیل کر دیا۔ اس پس منظر کو ذہن نشین کر کے آیت زیر نظر کا مطالعہ کیا جائے تو سیاق و سباق بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خائن اور ناشکرے لوگ کون ہیں جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔ 

UP
X
<>