May 14, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ 

اﷲ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ہم نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنادیئے ہیں ، تاکہ تم اس بات پر اﷲ کی تکبیر کرو کہ اُس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں ، اُنہیں خوشخبری سنا دو

 آیت ۳۷:  لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآءُٔہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ:   «اللہ تک نہ تو ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، لیکن اس تک پہنچتا ہے تمہاری طرف سے تقویٰ۔»

            قربانی کا اصل فلسفہ یہی ہے، بلکہ ہر عبادت کا فلسفہ یہی ہے۔ کسی بھی عبادت کا ایک ظاہری پہلو یا ڈھانچہ ہے اور ایک اس کی روح ہے۔ ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ اہم ہے اور وہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس عبادت کا بجا لانا ممکن نہیں، لیکن یہ ظاہری پیکر اصل دین اور اصل مقصود نہیں ہے۔ کسی بھی عبادت سے اصل مقصود اس کی روح ہے۔ اسی نکتہ کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں واضح کیا ہے: 

رہ گئی رسم ِاذاں، روحِ بلالی نہ رہی

 فلسفہ رہ گیا،   تلقین ِغزالی نہ رہی

اور:

نماز   و روزہ   و قربانی   و حج

یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے!

چنانچہ قربانی کا اصل مقصود ہمارے دلوں کا تقویٰ اور اخلاص ہے۔ اللہ کے ہاں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص قربانی دے رہا ہے وہ اپنی معمول کی زندگی میں اس کی نا فرمانی سے کتنا ڈرتا ہے؟ وہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں اللہ کے احکام و قوانین کا کس قدر پابند ہے؟ کس قدر وہ اپنی توانائیاں، اپنی صلاحیتیں اور اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کر رہا ہے؟ کیا قربانی کے جانور کا اہتمام اس نے رزقِ حلال سے کیا ہے؟ اس قربانی کے پیچھے اس کا جذبۂ اطاعت و ایثار کس قدر کارفرما ہے؟ یہ اور اسی نوعیت کی دوسری شرائط جو قربانی کی اصل روح اورتقویٰ کا تعین کرتی ہیں اگر موجود ہیں تو امید رکھنی چاہیے کہ قربانی اللہ کے حضور قابل قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ سب کچھ نہیں تو ٹھیک ہے آپ نے گوشت کھا لیا، کچھ غریبوں کو بھی اس میں سے حصہ مل گیا، اس کے علاوہ شاید قربانی سے اور کچھ فائدہ حاصل نہ ہو۔

            کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰاکُمْ:   «اسی طرح اُس نے انہیں تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی تکبیر کیا کرو اُس ہدایت پر جو اس نے تمہیں بخشی ہے۔»

            مسلمان سال میں دو عیدیں مناتے ہیں۔ ایک عید الفطر ہے جو روزوں کے بعد آتی ہے اور دوسری عید الاضحیٰ جو حج کے ساتھ منسلک ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کے ۲۳ ویں رکوع میں روزوں کے ذکر کے بعد بھی بالکل یہی حکم وارد ہوا ہے:  وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ:   «تا کہ تم لوگ اللہ کی تکبیر بیان کرو اُس ہدایت پر جس سے اس نے تمہیں سرفراز کیا ہے اور تاکہ تم شکر ادا کیا کرو»۔ یعنی دونوں مواقع پر اللہ کی تکبیر بلند کرتے ہوئے اس کی کبریائی کا اظہار کرنے کی خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی لیے عیدین کی نمازوں کے لیے آتے جاتے تکبیریں پڑھنے کی تاکید احادیث میں ملتی ہے اور عیدین کی نمازوں کے اندر بھی اضافی تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔

            وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ:   «اور (اے نبی!) محسنین کو بشارت دے دیجیے۔»

            محسنین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام، ایمان اور تقویٰ کی منزلیں طے کرتے ہوئے درجۂ احسان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ کی توفیق سے اس درجہ کو حاصل کر لیتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آمین! ثم آمین!

UP
X
<>