May 14, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 36

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ 

اور قربانی کے اُونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لئے اﷲ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لئے اُن میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں ، اُن پر اﷲ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہو کر) اُن کے پہلو زمین پر گر جائیں تو اُن (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور اُن محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں ، اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں ۔ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تمہارے تابع بنادیا ہے تاکہ تم شکر گذار بنو

 آیت ۳۶:  وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ:   «اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں سے بنایا ہے»

            قربانی کے جانور خاص طور پر اونٹ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔

            لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌ:   «تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے»

            کہ ان کا گوشت تم خود بھی کھا تے ہو اور غرباء کو بھی کھلاتے ہو۔

            فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ:   «تو تم ان پر اللہ کا نام لو انہیں صفوں میں کھڑا کر کے۔»

            صَوَافّ، صافَّۃ کی جمع ہے، یعنی صف میں کھڑے ہوئے۔ یہ اونٹوں کی قربانی کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انہیں قبلہ رو صف بستہ کھڑے کر کے نحر کرو۔ چونکہ اونٹ کو گرا کر ذبح کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے کھڑے کھڑے ہی اس کی گردن میں برچھا مارا جاتا ہے۔ اس سے اس کی گردن کی بڑی رگ سے خون کا فوارہ چھوٹتا ہے اورجب زیادہ خون نکل جاتا ہے تو وہ خود بخود نیچے گر پڑتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی، جن میں سے تریسٹھ اونٹوں کو آپ نے اسی طریقے سے خود اپنے دست مبارک سے نحر فرمایا تھا۔ حضور جونہی ایک اونٹ کو برچھا مارتے تھے اگلا اونٹ فوراً اپنی گردن حاضر کر دیتا تھا۔ گویا آپ کے ہاتھوں ذبح ہونا ان کے لیے ایک بہت بڑا عزاز تھا:

نشود نصیب ِدشمن کہ شود ہلاکِ تیغت

سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی!

            یہ شعور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اونٹ تو پھر جاندار ہے، اللہ تعالیٰ نے تو ایک سوکھی لکڑی کو ایسا شعور عطا فرما دیا تھا کہ وہ حضور کے فراق میں بے قرار ہو کر رونے لگ پڑی تھی۔ یہ ایمان افروز واقعہ احادیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، جس کا خلاصہ یوں ہے کہ شروع شروع میں مسجد نبوی کے اندر حضور جس جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے وہاں کھجور کا ایک خشک تنا موجود تھا۔ آپ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے جب منبر بن گیا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا پسند فرمایا۔ لیکن جب آپ پہلے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس خشک لکڑی سے ایسی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو۔ یعنی وہ خشک لکڑی اپنی محرومی پر رو رہی تھی کہ آج کے بعد اسے حضور کی معیت نصیب نہیں ہو گی۔ اس روز سے اس کا نام «حنانہ» (رقت والی) پڑ گیا۔ بعد میں اس جگہ پر ایک ستون تعمیر کر دیا گیا، جو «ستونِ حنانہ» سے موسوم ہے۔ مولانا روم نے اپنے اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے:

فلسفی کو منکرِ حنانہ است

از حواسِ انبیاء  بیگانہ است

کہ فلسفی کو «حنانہ» جیسے معاملہ کی سمجھ نہیں آ سکتی، اس لیے کہ وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں ہے۔ وہ تو انبیاء کرام کو بھی عام لوگوں پر ہی قیاس کرتا ہے۔ ایک عقلیت پسند شخص تو ایسے واقعہ کو تسلیم کرنے سے فوراً انکار کر دے گا۔ سر سید احمد خاں بھلا کیسے تسلیم کرتا کہ ایک سوکھی لکڑی سے رونے کی آواز آ سکتی ہے۔ بہر حال پرانے زمانے میں ایسی باتوں کا انکار فلسفی کیا کرتے تھے، آج کل سائنس دان اور عقلیت پرست دانشور ان باتوں کے منکر ہیں۔

            فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا:   «تو جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں»

            جب خون بہنے سے اونٹ کمزور ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایک طرف کو اپنی کروٹ کے بل زمین پر گر پڑتا ہے۔

            فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ:   «تو اب اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والے اور سوال کرنے والے کو بھی کھلاؤ!»

            ایسے مواقع پر ان سفید پوش ناداروں کو بھی مت بھولو جو اپنی خود داری اور قناعت کے سبب کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو اپنی محرومی کے ہاتھوں بے قرار ہو کر مانگنے کے لیے آپ کے پاس آ گئے ہیں۔

            کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ:   «اسی طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تا کہ تم شکر ادا کرو۔»

            اونٹ اتنا بڑا جانور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے اس انداز سے مسخر کر دیا ہے کہ تم اسے برچھا مار کر نحر کر لیتے ہو اور پھر اس کا گوشت کھاتے ہو۔ اس کے لیے تم پر لازم ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرو۔

UP
X
<>