May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 73

وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ 

اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے، وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں ۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا

  آیت 73:  وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ: ’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔‘‘

            عرب کے قبائلی معاشرے میں باہمی معاہدوں اور ولایت کا معاملہ بہت اہم ہوتا تھا۔ ایسے معاہدوں کی تمام ذمہ داریوں کو بڑی سنجیدگی سے نبھایا جاتا تھا۔ مثلاً اگر کسی شخص پر کسی قسم کا تاوان پڑ جاتا تھا تو اس کے ولی اور حلیف اس کے تاوان کی رقم پوری کرنے کے لیے پوری ذمہ داری سے اپنا اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ ولایت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی شرائط اور حدود واضح طور پر بتا دی گئیں کہ کفار باہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں‘ جب کہ اہل ایمان کا رشتہ ٔولایت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ مسلمان جنہوں نے ہجرت نہیں کی‘ اُن کا اہل ایمان کے ساتھ ولایت کا کوئی رشتہ نہیں۔ البتہ اگر ایسے مسلمان مدد کے طلب گار ہوں تو اہل ایمان ضرور اُن کی مدد کریں‘ بشرطیکہ یہ مدد کسی ایسے قبیلے کے خلاف نہ ہو جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے۔

             اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَـکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ: ’’اگرتم یہ (اِن قواعد و ضوابط کی پابندی) نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بہت بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔‘‘

            تم لوگوں کا ہر کام قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔ فرض کریں کہ مکہ میں ایک مسلمان ہے‘ وہ مدینہ کے مسلمانوں کو خط لکھتا ہے کہ مجھے یہاں سخت اذیت پہنچائی جا رہی ہے، آپ لوگ میری مدد کریں۔ دوسری طرف اس کے قبیلے کا مسلمانوں کے ساتھ صلح اور امن کا معاہدہ ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان اپنے اس بھائی کی مدد کے لیے اس کے قبیلے پرچڑھ دوڑیں‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی وعدہ خلافی اور نا انصافی کو پسند نہیں کرتا۔ اس مسلمان کو دوسرے تمام مسلمان کی طرح ہجرت کرکے دارالاسلام پہنچنا چاہیے اور اگر وہ ہجرت نہیں کر سکتا تو پھر وہاں جیسے بھی حالات ہوں اسے چاہیے کہ انہیں برداشت کرے۔ چنانچہ واضح انداز میں فرمایا دیا گیا کہ اگر تم ان معاملات میں قوانین و ضوابط کی پاسداری نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا۔ اب وہ آیت آ رہی ہے جس کا ذکر سورہ کے آغاز میں پرکار (compass) کی تشبیہ کے حوالے سے ہوا تھا۔ 

UP
X
<>