May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 72

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ 

جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور انہوں نے ہجرت کی ہے، اور اپنے مالوں اور جانوں سے اﷲ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں ) آباد کیا، اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، (مگر) انہوں نے ہجرت نہیں کی، جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں ، (اے مسلمانو !) تمہارا اُن سے وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر دین کی وجہ سے وہ تم سے کوئی مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد واجب ہے، سوائے اس صورت کے جبکہ وہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اﷲ اُسے اچھی طرح دیکھتا ہے

  آیت 72:  اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُم اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ: ’’یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں، اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں پناہ دی اور اُن کی مدد کی‘ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔‘‘

            اُس وقت تک مسلمان معاشرہ دو علیحدہ علیحدہ گروہوں میں منقسم تھا‘ ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور دوسرا انصار کا۔ اگرچہ مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنایا جا چکا تھا‘ لیکن اس طرح کے تعلق سے پورا قبائلی نظام ایک دم تو تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اُس وقت تک صورت حال یہ تھی کہ غزوۂ بدر سے پہلے جو آٹھ مہمات حضور نے مختلف علاقوں میں بھیجیں ان میں آپ نے کسی انصاری صحابی کو شریک نہیں فرمایا۔ انصار پہلی دفعہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ اس تاریخی حقیقت کو مد ِنظر رکھا جائے تو یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ آیت کے پہلے حصے میں مہاجرین کا ذکر ہجرت کے علاوہ جہاد کی تحضیص کے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ یعنی انصارِ مدینہ تو جہاد میں بعد میں شامل ہوئے‘ ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد تک تو جہادی مہمات میں حصہ صرف مہاجرین ہی لیتے رہے تھے۔ یہاں انصار کی شان یہ بتائی گئی: وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْا: کہ انہوں نے اپنے دلوں اور اپنے گھروں میں مہاجرین کے لیے جگہ پیدا کی اور ہر طرح سے ان کی مدد کی۔

             وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلاَیَتِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ: ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی‘ تمہارا (اب) اُن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘

             حَتّٰی یُہَاجِرُوْا: ’’حتیٰ کہ وہ ہجرت کریں۔‘‘

            سورۃ النساء میں (جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی ہے) ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں واضح حکم (آیات: 89‘ 90) موجود ہے۔ وہاں انہیں منافقین اور کفار جیسے سلوک کا مستحق قرار دیا گیا ہے کہ انہیں پکڑو اور قتل کرو اِلَّا یہ کہ اُن کا تعلق کسی ایسے قبیلے سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو۔

              آیت زیر نظر میں بھی واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی اُن کے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ ٔولایت ورفاقت نہیں ہے۔ یعنی ایمانِ حقیقی تو دل کا معاملہ ہے جس کی کیفیت صرف اللہ جانتا ہے‘ لیکن قانونی تقاضوں کے لیے ایمان کا ظاہری معیار ہجرت قرار پایا۔ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد مکہ سے مدینہ ہجرت کی‘ انہوں نے اپنے ایمان کا ظاہری ثبوت فراہم کر دیا‘اور جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی مگر ایمان کے دعویدار رہے‘ انہیں قانونی طور پر مسلمان تسلیم نہیں کیا گیا۔ مثلاً بدر کے قیدیوں میں سے کوئی شخص اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو ایمان لا چکا تھا‘ جنگ میں تو مجبوراً شامل ہوا تھا‘ تو اس کا جواب اس اصول کے مطابق یہی ہے کہ چونکہ تم نے ہجرت نہیں کی‘ لہٰذا تمہارا شمار ان ہی لوگوں کے ساتھ ہو گا جن کے ساتھ مل کر تم جنگ کرنے آئے تھے۔ اس لحاظ سے اس   آیت کا روئے سخن بھی اسیرانِ بدر کی طرف ہے۔

             ان میں سے اگر کوئی شخص اسلام کا دعویدار ہے تو وہ قانون کے مطابق فدیہ دے کر آزاد ہو‘ واپس مکہ جائے‘ پھر وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ آ جائے تو اسے صاحب ایمان تسلیم کیا جائے گا۔ پھر وہ تمہارا حمایتی ہے اور تم اس کے حمایتی ہو گے۔

             وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ: ’’اوراگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر واجب ہے‘‘

            یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن مکہ میں ہی رہے یا اپنے اپنے قبیلے میں رہے اوراُن لوگوں نے ہجرت نہیں کی‘ اگر وہ دین کے معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگیں تو تم ان کی مدد کرو۔

             اِلاَّ عَلٰی قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ: ’’مگر کسی ایسی قوم کے خلاف (نہیں) کہ اُن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو۔‘‘

            اگرچہ دارالاسلام والوں پر ان مسلمانوں کی حمایت و مدافعت کی ذمہ داری نہیں ہے جنہوں نے دارالکفر سے ہجرت نہیں کی ہے‘ تاہم وہ دینی اخوت کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے اس دینی تعلق کی بنا پر مدد کے طالب ہوں تو ان کی مدد کرنا ضروری ہے‘ بشرطیکہ یہ مدد کسی ایسے قبیلے کے مقابلے میں نہ مانگی جا رہی ہو جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ معاہدہ کا احترام بہرحال مقدم ہے۔  

             وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ: ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>