May 1, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 74

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ 

اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اﷲ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا، اور ان کی مدد کی، وہ سب صحیح معنی میں مومن ہیں ۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں

 آیت 74:  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا: ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں ( یعنی مہاجرین) اور وہ لوگ (انصارِ مدینہ) جنہوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی نصرت کی‘‘

             اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ: ’’یہی لوگ ہیں سچے مؤمن۔ اُن کے لیے ہے مغفرت اور رزقِ کریم۔‘‘

            یہاں پرمہاجرین اور انصار کے ان دونوں گروہوں کا اکٹھے ذکر کر کے ان مؤمنین صادقین کی خصوصیات کے حوالے سے ایک حقیقی مؤمن کی تعریف (definition) کے دوسرے رُخ کی جھلک دکھائی گئی ہے‘ جبکہ اس کے پہلے حصے یا رُخ کے بارے میں ہم اسی سورت کی آیت 2 اور 3 میں پڑھ آئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے پہلے مذکورہ آیات کے مضمون کو ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کر لیجئے۔

            اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ…)، یعنی کلمہ ٔشہادت‘ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ۔ یہ پانچ ارکان مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن حقیقی مؤمن ہونے کے لیے ان میں دو چیزوں کا مزید اضافہ ہو گا‘ جن کا ذکر ہمیں سورۃ الحجرات کی آیت: 15 میں ملتا ہے: ’’یقین قلبی‘‘ اور ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ۔ یعنی ایمان میں زبان کی شہادت کے ساتھ ’’یقین قلبی‘‘ کا اضافہ ہو گا اور اعمال میں نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کے ساتھ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا۔ گویا یہ سات چیزیں یا سات شرطیں پوری ہوں گی تو ایک شخص بندۂ مؤمن کہلائے گا۔ اس بندۂ مؤمن کی شخصیت کا جو نقشہ اس سورت کی آیت 2 اور 3 میں دیا گیا ہے اس کے مطابق اس کے دل میں یقین والا ایمان ہے‘ اللہ کی یاد سے اُس کا دل لرز اُٹھتا ہے‘ آیات قرآنی پڑھتا ہے یا سنتا ہے تو دل میں ایمان بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہر معاملے میں اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھتا ہے‘ نماز قائم کرتا ہے‘ زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اِن خصوصیات کے ساتھ «اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا» کی مہر لگا دی گئی اور اس مہر کے ساتھ وہاں پر(آیت: 4) مؤمن کی شخصیت کا ایک رُخ یا ایک صفحہ مکمل ہو گیا۔

            اب بندۂ مؤمن کی شخصیت کا دوسرا صفحہ یا رُخ آیت زیر نظر میں یوں بیان ہوا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ لازمی شرط کے طور پر اس میں شامل کر دیا گیا اور پھر اس پر بھی وہی مہر ثبت کی گئی ہے: «اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا»  چنانچہ یہ دونوں رُخ مل کر بندۂ مؤمن کی تصویر مکمل ہو گئی۔ ایک شخصیت کی تصویر کے یہ دو رخ ایسے ہیں جن کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دو صفحے ہیں جن سے مل کر ایک ورق بنتا ہے۔ صحابہ کرام کی شخصیتوں کے اندر یہ دونوں رخ ایک ساتھ پائے جاتے تھے‘ مگر جیسے جیسے اُمت زوال پذیر ہوئی‘ بندۂ مؤمن کی شخصیت کی خصوصیات کے بھی حصے بخرے کر دیے گئے۔ بقولِ علامہ اقبال:

اڑائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گل نے

چمن  میں  ہر  طرف  بکھری  ہوئی ہے  داستاں میری

            آج مسلمانوں کی مجموعی حالت یہ ہے کہ اگر کچھ حلقے ذکر کے لیے مخصوص ہیں تو اُن کو جہاد اور فلسفہ ٔجہاد سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسری طرف جہادی تحریکیں ہیں تو اُن کو رُوحانی کیفیات سے شناسائی نہیں۔ لہٰذا آج اُمت کے دکھوں کے مداوا کرنے کے لیے ایسے اہل ایمان کی ضرورت ہے جن کی شخصیات میں یہ دونوں رنگ اکٹھے ایک ساتھ جلوہ گر ہوں۔ جب تک مؤمنین صادقین کی ایسی شخصیات وجود میں نہیں آئیں گی‘ جن میں صحابہ کرام کی طرح دونوں پہلوؤں میں توازن ہو‘ اس وقت تک مسلمان اُمت کی بگڑی تقدیر نہیں سنور سکتی۔ اگرچہ صحابہ کرام جیسی کیفیات کا پیدا ہونا تو آج نا ممکنات میں سے ہے‘ لیکن کسی نہ کسی حد تک اُن ہستیوں کا عکس اپنی شخصیات میں پیدا کرنے اور ایک ہی شخصیت کے اندر ان دونوں خصوصیات کا کچھ نہ کچھ توازن پیدا کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ان میں سے ایک کیفیت ایک شخصیت کے اندر 25 فیصد ہو اور دوسری کیفیت بھی 25 فیصد کے لگ بھگ ہو تو قابل قبول ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ روحانی کیفیت تو 70 فیصد ہو مگر جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ صفر ہے یا جہاد کا جذبہ تو 80 فیصد ہے مگر روحانیت کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تو ایسی شخصیت نظریاتی لحاظ سے غیر متوازن ہو گی۔ بہر حال ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تکمیل کے لیے یہ دونوں رُخ ناگزیر ہیں۔ اِن کو اکٹھا کرنے اور ایک شخصیت میں توازن کے ساتھ جمع کرنے کی آج کے دور میں سخت ضرورت ہے۔ 

UP
X
<>