May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 53

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 

یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ اﷲ کا دستور یہ ہے کہ اُس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو، اُسے اُس وقت تک بدلنا گوارا نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر لیں ، اور اﷲ ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے

  آیت 53:  ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ: ’’یہ اس لیے کہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کوئی نعمت جو اُس نے کسی قوم کو دی ہو اُس میں تغیر کرے جب تک کہ وہ قوم اپنی اندرونی کیفیت کو متغیر نہ کر دے‘‘

            اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنا پیغمبر مبعوث کیا‘ جس نے اللہ کی توحید اور اس کے احکام کے مطابق اس قوم کو دعوت دی۔ پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا‘ اُن پر اپنے انعامات و احسانات کی بارشیں کیں۔ پھر اپنے پیغمبر کے بعد ان لوگوں نے آہستہ آہستہ کفرو ضلالت کی روش اختیار کی اور توحید کی شاہراہ کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیاں اختیار کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے بھی اُن سے منہ موڑ لیا‘ انعامات کی جگہ اللہ کے عذاب نے لے لی اور یوں وہ قوم تباہ و برباد کر دی گئی۔

            حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہونے والے مؤمنین کی نسل سے ایک قوم وجود میں آئی۔ جب وہ قوم گمراہ ہوئی تو حضرت ہود کو اُن کی طرف بھیجا گیا۔ پھر حضرت ہود پر ایمان لانے والوں کی نسل سے ایک قوم نے جنم لیا اور پھر جب وہ لوگ گمراہ ہوئے تو اُن کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ گویا ہر قوم اسی طرح وجود میں آئی‘ مگراللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے اپنی نعمت اُس وقت تک سلب نہیں کی جب تک کہ خود انہوں نے ہدایت کی راہ کو چھوڑ کر گمراہی اختیار نہیں کی۔ یہ مضمون بعد میں سورۃ الرعد (آیت: 11) میں بھی آئے گا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مضمون کو ایک خوبصورت شعر میں اس طرح ڈھالا ہے:

خدا نے  آج تک  اُس  قوم کی  حالت  نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!

            اس فلسفے کے مطابق جب کوئی قوم محنت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو اس کے ظاہری حالات میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور یوں اس کی تقدیر بدلتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں (wishful thinkings) اور دعاؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں، اور قوم چونکہ افراد کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اس لیے تبدیلی کا آغاز افراد سے ہوتا ہے۔ پہلے چند افراد کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور اُن کی سوچ‘ اُن کے نظریات‘ اُن کے خیالات‘ اُن کے مقاصد‘ اُن کی دلچسپیاں اور اُن کی امنگیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب ایسے پاک باطن لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی ہے اور وہ لوگ ایک طاقت اور قوت کے طور پر خود کو منظم کر کے باطل کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو طاغوتی طوفان اپنا رُخ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یوں اہل حق کی قربانیوں سے نظام بدلتا ہے، معاشرہ پھر سے راہِ حق پر گامزن ہوتا ہے اور انقلاب کی سحر پر نور طلوع ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اِس انقلاب کے لیے فکری و عملی بنیاد اور اس کٹھن سفر میں زادِ راہ کی فراہمی صرف اور صرف قرآنی تعلیمات سے ممکن ہے۔ اسی سے انسان کے اندر کی دنیا میں انقلاب آتا ہے۔ اسی اکسیر سے اُس کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور پھر مٹی کا یہ انبار یکایک شمشیر بے زنہار کا روپ دھار لیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس لطیف نکتے کی وضاحت اس طرح کی ہے:

چوں بحاں در رفت جاں دِیگر شود

جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

            یعنی جب یہ قرآن کسی انسان کے دل کے اندر اتر جاتا ہے تو اس کے دل اور اس کی روح کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اور ایک بنده مؤمن کے اندر کا یہی انقلاب بالآخر عالمی انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

             وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ: ’’اور یہ کہ اللہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>