May 4, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 46

وَأَطِيعُواْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

اور اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑجاؤ گے، اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ اور صبر سے کام لو۔ یقین رکھو کہ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

  آیت 46:  وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ: ’’اور حکم مانو اللہ کا اور اُس کے رسول کا‘‘

            یہ تیسرا حکم ڈسپلن کے بارے میں ہے کہ جو حکم تمہیں رسول کی طرف سے ملے اس کی دل و جان سے پابندی کرو۔ اگرچہ یہاں اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی بات ہوئی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ اطاعت رسول اللہ  ہی کی تھی‘ کیونکہ جو حکم بھی آتا تھا وہ آپ ہی کی طرف سے آتا تھا۔ قرآن بھی حضور کی زبانِ مبارک سے ادا ہوتا تھا اور اگر آپ اپنی کسی تدبیر سے اجتہاد کے تحت کوئی فیصلہ فرماتے یا کوئی رائے ظاہر فرماتے تو وہ بھی آپ ہی کی زبانِ مبارک سے ادا ہوتا تھا۔ لہٰذا عملاً اللہ کی اطاعت آپ ہی کی اطاعت میں مضمر ہے۔ اقبال نے اس نکتے کو بہت خوبصورتی سے اس ایک مصرعے میں سمو دیا ہے: ع

 ’’بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست!‘‘

             وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: ’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ڈھیلے پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘ اور ثابت قدم رہو۔ یقینا اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

            یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم سوره آلِ عمران کی آیت: 152 میں پڑھ چکے ہیں۔ وہاں غزوۂ احد کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہ حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَـآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ». اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ ایک سال بعد (غزوۂ اُحد میں) کیا صورتِ حال پیش آنے والی ہے۔ چنانچہ ایک سال پہلے ہی مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے بارے میں بہت واضح ہدایات دی جا رہی ہیں‘ کہ ڈسپلن کی پابندی کرو اور اطاعت رسول پر کاربند رہو۔ 

UP
X
<>