May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 43

إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلاً وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ 

اور (اے پیغمبر !) وہ وقت یاد کرو جب اﷲ خواب میں تمہیں اُن (دشمنوں ) کی تعداد کم دکھا رہا تھا، اور اگر تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو (اے مسلمانو !) تم ہمت ہارجاتے، اور تمہارے درمیان اس معاملے میں اختلاف پیدا ہوجاتا، لیکن اﷲ نے (تمہیں اس سے) بچالیا۔ یقینا وہ سینوں میں چھپی باتیں خوب جانتا ہے

  آیت 43:   اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً: ’’جب اللہ آپ کو دکھا رہا تھا (اے نبی) انہیں آپ کی نیند میں کم تعداد میں‘‘

            رسول اللہ نے خواب میں دیکھا کہ قریش کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے‘ بس تھوڑے سے لوگ ہیں جو بدر کی طرف جنگ کے لیے آ رہے ہیں‘ حالانکہ وہ ایک ہزار افراد پر مشتمل بہت بڑا لشکر تھا۔

             وَلَوْ اَرٰکَہُمْ کَثِیْرًا: ’’اور اگر آپ کو دکھاتا کہ وہ کثیر تعداد میں ہیں‘‘

            اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو وہ خبر جوں کی توں بتائی ہوتی:

             لَّـفَشِلْتُمْ وَلَـتَـنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ: ’’(تو اے مسلمانو!) تم ضرور کمزوری دکھاتے اور معاملے میں اختلاف کرتے‘‘

            دشمن کی اصل تعداد اور طاقت کے بارے میں جان کر آپ لوگ پست ہمت ہو جاتے اور اختلاف میں پڑ جاتے کہ ہمیں بدر میں جا کر اس لشکر کا مقابلہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ اس طرح آراء میں اختلاف کی بنا پر بھی تمہاری جمعیت میں کمزوری آ جاتی۔

             وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ اِنَّہ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: ’’لیکن اللہ نے سلامتی پیدا فرما دی۔ یقینا وہ واقف ہے اس سے جو کچھ سینوں کے اندر ہے۔‘‘

            رسول اللہ نے جو خواب دیکھا وہ تو غلط نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ انبیاء کے تمام خواب سچے ہوتے ہیں۔ اس لیے مفسرین نے اس نکتے کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ آپ کو لشکر کفار کی معنوی حقیقت دکھائی گئی تھی۔ یعنی کسی چیز کی ایک کمیت (quantitative value) ہوتی ہے اور ایک اس کی کیفیت اور اس کی اصل حقیقت ہوتی ہے۔ کمیت کے پہلو سے دیکھا جائے تو لشکر کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور وہ مسلمانوں سے تین گنا تھے‘ مگر اس لشکر کی اندرونی کیفیت یکسر مختلف تھی۔ درحقیقت مکہ کے عوام الناس کی اکثریت حضور کو اپنے معاشرے کا بہترین انسان سمجھتی تھی۔ ان کی سوچ کے مطابق آپ کے تمام ساتھی بھی مکہ کے بہترین لوگ تھے۔ مکہ کا عام آدمی دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرتا تھا کہ محمد اور آپ کے ساتھیوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے، بلکہ یہ لوگ ایک خدا کو ماننے والے‘ نیکیوں کا حکم دینے والے اور شریف لوگ ہیں۔ چنانچہ مکہ کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ ایسے تمام لوگ اپنے سرداروں اور لیڈروں کے حکم کی تعمیل میں لشکر میں شامل تو ہو گئے تھے‘ مگر اُن کے دل اپنے لیڈروں کے ساتھ نہیں تھے۔ جنگ میں دراصل جان کی بازی لگانے کا جذبہ ہی انسان کو بہادر اور طاقتور بناتا ہے اور یہ جذبہ نظریے کی سچائی اور نظریاتی پختگی سے پیدا ہوتا ہے۔ قریش کے اس لشکر میں کسی ایسے حقیقی جذبے کا سرے سے فقدان تھا۔ لہٰذا تعداد میں اگرچہ وہ لوگ زیادہ تھے مگر معنوی طور پر اُن کی جو کیفیت اور اصل حقیقت تھی اس لحاظ سے وہ بہت کم تھے اور حضور کو خواب میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی اصل حقیقت دکھائی تھی۔

UP
X
<>