May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 42

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ 

وہ وقت یاد کرو جب تم لوگ وادی کے قریب والے کنارے پر تھے، اور وہ لوگ دُور والے کنارے پر، اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف۔ اور اگر تم پہلے سے (لڑائی کا) وقت آپس میں طے کرتے تو وقت طے کرنے میں تمہارے درمیان ضرور اختلاف ہوجاتا، لیکن یہ واقعہ (کہ پہلے سے طے کئے بغیر لشکر ٹکرا گئے) اس لئے ہوا کہ جو کام ہو کر رہنا تھا، اﷲ اُسے پورا کر دکھائے، تاکہ جسے برباد ہونا ہو، وہ واضح دلیل دیکھ کر برباد ہو، اور جسے زندہ رہنا ہو، وہ واضح دلیل دیکھ کر زندہ رہے، اور اﷲ ہر بات سننے والا، ہر چیز جاننے والا ہے

  آیت 42:  اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی: ’’جب تم لوگ تھے قریب والے کنارے پر اور وہ لوگ تھے دُور والے کنارے پر‘‘

            وادیٔ بدر دونوں اطراف سے تنگ ہے جب کہ درمیان میں میدان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس وادی کا ایک تنگ کنارہ شمال کی طرف ہے جہاں سے شام کی طرف راستہ نکلتا ہے اور دوسرا کنارہ جنوب کی طرف ہے جہاں سے مکہ کو راستہ جاتا ہے۔ وادی میں سے ایک راستہ مشرق کی سمت بھی نکلتا ہے جو مدینہ کی طرف جاتا ہے۔ لہٰذا پرانے زمانے میں حاجیوں کے زیادہ تر فاقلے وادیٔ بدر سے ہی گزرتے تھے۔ اب نئی موٹر وے ’’طریق الھجرۃ‘‘ بن جانے سے لوگوں کو ان مقامات سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ غزوه بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تدبیر کا ظہور ہوا کہ دونوں لشکر وادیٔ بدر میں ایک ساتھ پہنچے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے کہ جب قریش کا لشکر وادی کے دور والے (جنوبی) کنارے پر آ پہنچا اور مشرق کی جانب سے حضور اپنا لشکر لے کر اس کنارے پر پہنچ گئے جو مدینہ سے قریب تھا۔

             وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ:  ’’اور قافلہ تم سے نیچے تھا۔‘‘

            قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت نیچے ساحل سمندر کی طرف سے ہو کر گزر رہا تھا۔ ابو سفیان نے ایک طرف تو قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ والوں کو پیغام بھیج دیا تھا اور دوسری طرف اصل راستے کو چھوڑ دیا تھا جو وادی ٔبدر سے ہو کر گزرتا تھا اور اب یہ قافلہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ بدر کے پہاڑی سلسلے سے آگے تہامہ کا میدان ہے جو ساحل سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ اور قافلہ اس وقت اس میدان کی بھی آخری حدود پر سمندر کی جانب تھا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قافلہ تم سے نچلی سطح پر تھا۔

             وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْْمِیْعَادِ: ’’اوراگر تم لوگ آپس میں میعاد ٹھہرا کر نکلتے تو بھی وقت ِمقررہ (پر پہنچنے) میں تم ضرور مختلف ہو جاتے‘‘

            یعنی یہ تو اللہ کی مشیت کے تحت دونوں لشکر ٹھیک ایک ہی وقت پر وادی کے دونوں کناروں پر پہنچے تھے۔ اگر آپ لوگوں نے مقامِ معین پر پہنچنے کے لیے آپس میں کوئی وقت مقرر کیا ہوتا تو اس میں ضرور تقدیم و تاخیر ہو جاتی‘ لیکن ہم نے دونوں لشکروں کو عین وقت پر ایک ساتھ آمنے سامنے لا کھڑا کیا‘ کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ یہ ٹکراؤ ہو جائے اور اہل مکہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے۔

             وَلٰـکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً: ’’لیکن (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تا کہ اللہ فیصلہ کردے اس کام کا جو ہونے ہی والا تھا‘‘

             لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ : ’’تا کہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ ہلاک ہو بات واضح ہو جانے کے بعد‘‘

            یعنی حق کے واضح ہو جانے میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ اہل مکہ میں سے اُن عوام کے لیے بھی حق کو پہچاننے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے جنہیں اب تک سرداروں نے گمراہ کر رکھا تھا۔ اگر اب بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ ہلاکت کے راستے پر ہی گامزن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی‘ مگر ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کو ہلاک ہی ہونا ہے تو ان میں سے ہر فرد حق کے پوری طرح واضح ہونے کے بعد ہلا ک ہو۔

             وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ: ’’ اور جسے زندہ رہنا ہے وہ زندہ رہے واضح دلیل کی بنا پر۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

             جو سیدھے راستے پر آنا چاہتا ہے وہ بھی اس بَیِّنَہ کی بنا پر سیدھے راستے پر آ جائے اور حیاتِ معنوی حاصل کر لے۔ 

UP
X
<>