May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 41

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

اور (مسلمانو !) یہ بات اپنے علم میں لے آؤ کہ تم جو کچھ مالِ غنیمت حاصل کرو، اُس کا پانچواں حصہ اﷲ اور رسول اور اُن کے قرابت داروں اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے (جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے، ) اگر تم اﷲ پر اور اُس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی تھی، جس دن دو جماعتیں باہم ٹکرائی تھیں ۔ اور اﷲ ہر چیز پر قادر ہے

  آیت 41:  وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی: ’’اور جان لو کہ جو بھی غنیمت تمہیں حاصل ہوئی ہے اُس کا خمس (پانچواں حصہ) تو اللہ کے لیے، رسول کے لیے اور (رسول کے) قرابت داروں کے لیے ہے‘‘

            اس آیت میں مالِ غنیمت کا حکم بیان ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بعثت کے بعد سے رسول اللہ کا ذریعہ معاش کوئی نہیں تھا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنی ساری دولت ہر قسم کے تصرف کے لیے آپ کو پیش کر دی تھی۔ جب تک آپ مکہ میں رہے‘ کسی نہ کسی طرح اسی سرمائے سے آپ کے ذاتی اخراجات چلتے رہے‘ لیکن ہجرت کے بعد اس سلسلے میں کوئی مستقل انتظام نہیں تھا۔ پھر آپ کے قرابت دار اور اہل و عیال بھی تھے جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی۔ ان سب اخراجات کے لیے ضروری تھا کہ کوئی معقول اور مستقل انتظام کر دیا جائے۔ چنانچہ غنائم میں سے پانچواں حصہ مستقل طور پر بیت المال کو دے دیا گیا اور آپ کے ذاتی اخراجات‘ ازواجِ مطہرات کا نان نفقہ اور آپ کے قرابت داروں کی کفالت بیت المال کے ذمہ طے پائی۔

             وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ: ’’اور (اس میں حصہ ہو گا) یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے(بھی)‘‘

            اسی پانچویں حصے میں سے معاشرے کے محروم افراد کی مدد بھی کی جائے گی۔

             اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَـآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ: ’’اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اُس شے پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر فیصلے کے دن‘ جس دن دو فوجوں کا ٹکراؤ ہوا تھا۔‘‘

             وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ: ’’ اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘

            فیصلے (غزوۂ بدر) کے دن جو شے خصوصی طور پر نازل کی گئی وہ غیبی امداد اور نصرتِ الٰہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ تمہاری مدد کے لیے فرشتے آئیں گے۔ وہ فرشتے اگرچہ کسی کو نظر تو نہیں آتے تھے‘ لیکن جیسے تم لوگ بہت سی دوسری چیزوں پر ایمان بالغیب رکھتے ہو‘ اللہ پر اور اُس کی وحی پر ایمان رکھتے ہو‘ جبرائیل کے وحی لانے پر ایمان رکھتے ہو اور اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہو‘ اسی طرح تمہارا یہ ایمان بھی ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا جو اس نے اپنے رسول اور مسلمانوں کی مدد کے سلسلے میں کیا تھا اور یہ کہ تمہاری یہ فتح اللہ کی مدد سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ اگر تم لوگوں کا اس حقیقت پر یقین کامل ہے تو پھر اللہ کا یہ فیصلہ بھی دل کی آمادگی اور خوشی سے قبول کر لو کہ مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ‘ اس کے رسول اور بیت المال کا ہو گا۔

            اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تمام مالِ غنیمت ایک جگہ جمع کیا گیا اوراس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس میں سے ہر اُس شخص کو برابر کا حصہ ملا جو لشکر میں جنگ کے لیے شامل تھا‘ قطع نظر اس کے کہ کسی نے عملی طور پر قتال کیاتھا یا نہیں کیا تھا اور قطع نظر اس کے کہ کسی نے بہت سا مالِ غنیمت جمع کیا تھا یا کسی نے کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا۔ البتہ اس تقسیم میں سوار کے دو حصے رکھے گئے اور پیدل کے لیے ایک حصہ۔ اس لیے کہ سواریوں کے جانور مہیّا کرنے اور اُن جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات متعلقہ افراد ذاتی طور پر برداشت کرتے تھے۔ 

UP
X
<>