May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 18

ذَلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ 

یہ سب کچھ تو اپنی جگہ، اسکے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ اﷲ کو کافروں کی ہر سازش کو کمزور کرنا تھا

آیت 18:  ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْہِنُ کَیْدِ الْکٰفِرِیْنَ: ’’یہ تو ہو چکا، اور (آئندہ کے لیے بھی سمجھ لو کہ) اللہ کفارکی تمام چالوں کو ناکام بنا دینے والا ہے۔‘‘

            یہ گویا اہل ایمان اور کفار دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد صرف کفار سے خطاب ہے۔ ابو جہل کو بحیثیت سپہ سالار اپنے لشکر کی تعداد‘ اسلحہ اور سازو سامان کی فراوانی کے حوالے سے پورا یقین تھا کہ ہم مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے ہی پراپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ معرکہ کا دن ’’یوم الفرقان‘‘ ثابت ہو گا اور اُس دن یہ واضح ہو جائے گا کہ اللہ کس کے ساتھ ہے۔ اللہ کو توکفار بھی مانتے تھے۔ چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں ابو جہل کی اس دعا کے الفاظ بھی منقول ہیں جو بدر کی رات اس نے خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی۔ اُس رات جب ایک طرف حضور اکرم دعا مانگ رہے تھے تو دوسری طرف ابو جہل بھی دعا مانگ رہا تھا۔ ا س کی دُعا حیرت انگیز حد تک موحدانہ ہے۔ اس دعا میں لات‘ منات‘ عزیٰ اور ہُبل وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں‘ بلکہ اس دُعا میں وہ براہِ راست اللہ سے التجاکر رہا ہے : اللّٰھم اقطعنا للرحم فاحنہ الغداۃ کہ اے اللہ جس شخص نے ہمارے رحمی رشتے کاٹ دیے ہیں، کل تو اسے کچل کر رکھ دے۔ اس دُعا سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ابو جہل کا حضور پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے قریش کے خون کے رشتے کٹ گئے تھے۔ مثلاً ایک بھائی مسلمان ہو گیاہے اور باقی کافر ہیں‘ تونہ صرف یہ کہ ان میں اخوت کا رشتہ باقی نہ رہا‘ بلکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اسی طرح اولاد ماں باپ سے اور بیویاں اپنے شوہروں سے کٹ گئیں۔ چونکہ اس عمل سے قریش کی یک جہتی‘ طاقت اور ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی‘ اس لیے سب سے زیادہ انہیں اسی بات کا قلق تھا۔ بہر حال ابو جہل سمیت تمام قریش کی خواہش تھی اور وہ دعا گو تھے کہ اس چپقلش کا واضح فیصلہ سامنے آ جائے۔ ان کی اسی خواہش اور دعا کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے۔ 

UP
X
<>