May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 17

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 

چنانچہ (مسلمانو ! حقیقت میں ) تم نے ان (کافروں کو) قتل نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں اﷲ نے قتل کیا تھا، اور (اے پیغمبر !) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں ، بلکہ اﷲ نے پھینکی تھی، اور (تمہارے ہاتھوں یہ کام اس لئے کرایا تھا) تاکہ اس کے ذریعے اﷲ مومنوں کو بہترین اَجر عطا کرے۔ بیشک اﷲ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو جاننے والا ہے

آیت 17:   فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ: ’’پس (اے مسلمانو!) تم نے انہیں قتل نہیں کیا‘ بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا‘‘

            ویسے تو ہر کام میں فاعل حقیقی اللہ ہی ہے‘ ہم جو کام بھی کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی مشیت سے ممکن ہوتا ہے‘ اور جس شے کے اندر جو بھی تاثیر ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ عام حالات کے لیے بھی اگرچہ یہی قاعدہ ہے: «لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ اِلاَّ اللّٰہ»  لیکن یہ تو مخصوص حالات تھے جن میں اللہ کی خصوصی مدد آئی تھی۔

             وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی: ’’اور جب آپ نے (ان پر کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں‘‘

            میدانِ جنگ میں جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو رسول اللہ نے کچھ کنکریاں اپنی مٹھی میں لیں اور شَاھَتِ الْوجُوْہ (چہرے بگڑ جائیں) فرماتے ہوئے کفار کی طرف پھینکیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ کنکریاں کہاں کہاں تک پہنچی ہوں گی اور اُن کے کیسے کیسے اثرات کفار پر مرتب ہوئے ہوں گے۔ بہر حال یہاں پر آپ کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کر رہا ہے کہ اے نبی جب وہ کنکریاں آپ نے پھینکی تھیں‘ تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اسی بات کو اقبال ؔنے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ع ’’ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ!‘‘

             وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَآءً حَسَنًا: ’’تا کہ اللہ اس سے اہل ایمان کے جوہر نکھارے خوب اچھی طرح سے۔‘‘

            اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی آزمائشیں اپنے بندوں کی مخفی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ بَلَا‘ یَبْلُو‘ بَلَاء کے معنی ہیں آزمانا‘ تکلیف اور آزمائش میں ڈال کر کسی کو پرکھنا‘ لیکن اَبْلٰی‘ یُـبْلِی جب بابِ افعال سے آتا ہے تو کسی کے جوہر نکھارنے کے معنی دیتا ہے۔

             اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ : ’’یقینا اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہیے‘‘.

UP
X
<>