May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 16

وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَه اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 

اور اگر کوئی شخص کسی جنگی چال کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو، یا اپنی کسی جماعت سے جاملنا چاہتا ہو، اُس کی بات تو اور ہے، مگر اُس کے سوا جو شخص ایسے دن اپنی پیٹھ پھیرے گا تو وہ اﷲ کی طرف سے غضب لے کر لوٹے گا، اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے

ٓیت 16:  وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہ: ’’اور جو کوئی بھی اُن سے اُس دن اپنی پیٹھ پھیرے گا‘‘

            یعنی اگر کوئی مسلمان میدانِ جنگ سے جان بچانے کے لیے بھاگے گا۔

             اِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ: ’’سوائے اس کے کہ وہ کوئی داؤ لگا رہا ہو جنگ کے لیے‘‘

            جیسے دو آدمی دوبدو مقابلہ کر رہے ہوں اور لڑتے لڑتے کوئی دائیں، بائیں یا پیچھے کو ہٹے‘ بہتر داؤ کے لیے پینترا بدلے تو یہ بھاگنا نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو ایک تدبیراتی حرکت (tactical move) شمار ہو گی۔ اسی طرح جنگی حکمت ِعملی کے تحت کمانڈر کے حکم سے کوئی دستہ کسی جگہ سے پیچھے ہٹ جائے اور کوئی دوسرا دستہ اُس کی جگہ لے لے تو یہ بھی پسپائی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

             اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ: ’’یا کسی (دوسری) جمعیت سے ملنا ہو‘‘

            یعنی لڑائی کے دوران اپنے لشکر کے کسی دوسرے حصے سے ملنے کے لیے منظم طریقے سے پیچھے ہٹنا (orderly retreat) بھی پیٹھ پھیرنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ ان دو استثنائی صورتوں کے علاوہ اگر کسی نے بزدلی دکھائی اور بھگڈر کے اندر جان بچا کر بھاگا:

             فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ: ’’تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا اور اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘

            اب اگلی آیات میں یہ بات واضح تر انداز میں سامنے آ رہی ہے کہ غزوۂ بدر دُنیوی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی خاص مشیت کے تحت وقوع پذیر ہوا تھا۔ 

UP
X
<>