May 4, 2024

قرآن کریم > الـمنافقون >sorah 63 ayat 4

وَاِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۭ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۭ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ۡ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ

جب تم ان کو دیکھو تو ان کو ڈیل ڈول تمہیں بہت اچھے لگیں ، اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ، ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے لگی رکھی ہیں ۔ یہ ہر چیخ پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں ۔ یہی ہیں جو (تمہارے) دُشمن ہیں ، اس لئے ان سے ہوشیار رہو۔ اﷲ کے مار ہو ان پر ! یہ کہاں اوندھے چلے جارہے ہیں؟

آيت 4:  وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ:  «(اے نبى صلى الله عليه وسلم!) جب آپ انهيں ديكھتے هيں تو ان كے جسم آپ كو بڑے اچھے لگتے هيں».

جسمانى طور پر ان كى شخصيات بڑى دلكش اور متأثر كن هيں.

 وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ:  «اور اگر وه بات كرتے هيں تو آپ ان كى بات سنتے هيں».

ظاهر هے يه لوگ سرمايه دار بھى تھے اور معاشرتى لحاظ سے بھى صاحب حيثيت تھے. اس لحاظ سے ان كى گفتگو هر فورم پر توجه سے سنى جاتى تھى.

 كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ:  «(ليكن اصل ميں) يه ديوار سے لگائى هوئى خشك لكڑيوں كى مانند هيں».

حقيقت ميں ان لوگوں كى حيثيت ان خشك لكڑيوں كى سى هے جو كسى سهارے كے بغير كھڑى بھى نهيں هو سكتيں اور انهيں ديوار كى ٹيك لگا كر كھڑا كيا جاتا هے.

يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ:  «يه هر زور كى آواز كو اپنے هى اوپر گمان كرتے هيں».

اندر سے يه لوگ اس قدر بودے اور بزدل هيں كه كوئى بھى زور كى آواز يا كوئى آهٹ سنتے هيں تو ان كى جان پر بن جاتى هے. يه هر خطرے كو اپنے هى اوپر سمجھتے هيں اور هر وقت كسى ناگهانى حملے كے خدشے يا جهاد وقتال كے تقاضے كے ڈر سے سهمے رهتے هيں.

هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ:  «(آپ كے) اصل دشمن يهى هيں، آپ ان سے بچ كر رهيں!»

يه ان كے مرضِ نفاق كى تيسرى سٹيج كا ذكر هے. ان كى دشمنى چونكه دوستى كے پردے ميں چھپى هوتى هے اس ليے يهاں خصوصى طور پر ان سے هوشيار رهنے كى هدايت كى جا رهى هے كه اے نبى صلى الله عليه وسلم! يه لوگ آستين كے سانپ هيں. مشركين مكه كے لشكر آپ لوگوں كے ليے اتنے خطرناك نهيں جتنے يه اندر كے دشمن خطرناك هيں. لهذا آپ ان كو هلكا نه سمجھيں اور ان سے هوشيار رهيں. ايسى صورت حال كے ليے حضرت مسيح عليه السلام كا يه قول بهت اهم هے كه «فاخته كى مانند بے ضرر ليكن سانپ كى طرح هوشيار رهو». منافقين اگرچه حضور صلى الله عليه وسلم سے دشمنى كا كوئى موقع هاتھ سے نهيں جانے ديتے تھے، ليكن حضور صلى الله عليه وسلم كى شان يهى تھى كه آپ ان كى غلطياں اور گستاخياں مسلسل نظر انداز فرماتے رهتے تھے، بلكه آپ صلى الله عليه وسلم اپنى طبعى شرافت اور مروّت كى وجه سے ان كے جھوٹے بهانے بھى مان ليتے تھے. يهاں تك كه غزوه تبوك كى تيارى كے موقع پر جب آپ صلى الله عليه وسلم نے بهت سے منافقين كو جھوٹے بهانوں كى وجه سے پيچھے ره جانے كى اجازت دے دى تو الله تعالى كى طرف سے تنبيه آ گئى: ﴿عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾  {التوبة: 43}.

«(اے نبى صلى الله عليه وسلم!) الله آپ كو معاف فرمائے (يا: الله نے آپ كو معاف فرما ديا) آپ نے انهيں كيوں اجازت دے دى؟ يهاں تك كه آپ كے ليے واضح هو جاتا كه كون لوگ سچے هيں اور آپ (يه بھى) جان ليتے كه كون جھوٹے هيں!»

قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ:  «الله ان كو هلاك كرے، يه كهاں سے پھرائے جا رهے هيں!»

تصور كيجيے يه لوگ كس قدر قابل رشك مقام سے ناكام ونامراد لوٹے هيں! ان كو نبى آخر الزمان صلى الله عليه وسلم كا زمانه نصيب هوا، آپ كى دعوتِ ايمان پر لبيك كهنے كى توفيق ملى، آپ كے قدموں ميں بيٹھنے كے مواقع هاتھ آئے. كيسى كيسى سعادتيں تھيں جو ان لوگوں كے حصے ميں آئى تھيں. بقول ابراهيم ذوق:  ع «يه نصيب الله اكبر! لوٹنے كى جائے هے». مگر دوسرى طرف ان كى بدنصيبى كى انتها يه هے كه يهاں تك پهنچ كر بھى يه لوگ نامراد كے نامراد هى رهے. مقامِ عبرت هے! كس بلندى پر پهنچ كر يه لوگ كس اتھاه پستى ميں گرے هيں:

قسمت كى خوبى ديكھيے ٹوٹى كهاں كمند

دو چار  هاتھ  جب كه   لبِ بام   ره گيا!

UP
X
<>