April 26, 2024

قرآن کریم > الـجـمـعـة >sorah 62 ayat 4

ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ 

یہ ا ﷲ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، دیتا ہے، اور اﷲ بڑے فضل والا ہے

آيت 4:  ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ:  «يه الله كا فضل هے وه ديتا هے جسے چاهتا هے».

وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ:  «اور الله بڑے فضل والا هے».

الله تعالى كے فضل كے بهت سے درجات هيں اور ان ميں سب سے اونچا اور اعلى درجه پورى كائنات ميں محمد رّسول الله صلى الله عليه وسلم كے ليے مختص هے: ﴿إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا﴾ {بنى اسرائيل: 87}. «اس ميں كوئى شك نهيں كه اس كا فضل آپ پر بهت بڑا هے». حضور صلى الله عليه وسلم كے بعد هر اس شخص پر بھى الله كا بهت بڑا فضل هے جو حضور صلى الله عليه وسلم كے دامن سے وابسته هو گيا. الله تعالى كا شكر هے كه هميں اس نے اپنا يه فضل پيدائشى طور پر عطا فرما ديا اور هميں ايسے گھروں ميں پيدا كيا جهاں پيدا هوتے هى هم نے اپنے كانوں ميں اذان اور اقامت كى آوازيں سنيں. سورة الحجرات ميں الله تعالى كا فرمان هے:  ﴿بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ﴾ {آيت: 17}. كه تم پر الله كا يه بهت بڑا احسان هے كه اس نے تمهيں ايمان كے راستے پر ڈال ديا هے. اب اگر هم اپنے رويے سے الله كے اس فضل اور احسان كى ناقدرى كريں اور الله كى نافرمانى كے راستے پر چل كر رانده درگاه هو جائيں تو هم سے بڑا بدنصيب كون هو گا!

اس حوالے سے ايك اهم نكته يه بھى سمجھنے كا هے كه الله كے فضل كا تعلق دنيوى آسائش وآرام اور مال ودولت سے نهيں هے. اس ضمن ميں خود حضور صلى الله عليه وسلم كى مثال هى لے ليجيے، دنيوى لحاظ سے تو آپ صلى الله عليه وسلم كو بهت سى محروميوں كا سامنا تھا، آپ كو الله نے يتيم پيدا كيا، آپ كى پيدائش كے وقت گھر كى مالى حالت ايسى تھى كه كوئى دايه آپ صلى الله عليه وسلم كى پرورش كى ذمه دارى قبول كرنے كو تيار نه تھى. حليمه سعديه رضى الله عنها نے بھى آپ كو صرف اس ليے قبول كيا كه انهيں كوئى اور بچه ملا نهيں تھا. اس كے بعد آپ كے لڑكپن اور جوانى كا دور بھى سخت مشقت اور مزدورى ميں گزرا. آپ صلى الله عليه وسلم خود فرماتے هيں كه ميں چند ٹكوں كے عوض قريش كى بكرياں چرايا كرتا تھا. متعلقه حديث ميں درهم يا دينار كا ذكر نهيں بلكه «قَرَارِيْط» كا لفظ آيا هے جو ريزگارى كے ليے استعمال هوتا تھا، يعنى چند ٹكے يا پيسے. آپ صلى الله عليه وسلم كے اس دور كى جھلك سورة الضحى كى ان آيات ميں بھى نظر آتى هے:

﴿أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى ۝ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى ۝ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى﴾

«كيا اس نے آپ كو يتيم نهيں پايا پھر آپ كو ٹھكانه ديا! اور آپ كو تلاشِ حقيقت ميں سرگرداں پايا تو راه دكھلائى! اور آپ كو نادار پايا تو مال دار كر ديا!»

اس كے بعد دور نبوت ميں بھى آپ صلى الله عليه وسلم كى زندگى مسلسل فقر وفاقه اور مصائب ومشكلات ميں گزرى. آپ كے راستے ميں كانٹے بچھائے گئے. آپ كو شاعر ومجنون كها گيا، اوباش اور آواره لڑكوں نے پتھراؤ كر كے آپ كو لهو لهان كرديا. غرض آپ صلى الله عليه وسلم كى دنيوى زندگى مجموعى طور پر سخت مشكلات اور مشقت ميں گزرى. جبكه دوسرى طرف آپ صلى الله عليه وسلم كى شان يه هے كه پورى كائنات ميں الله كا سب سے بڑا فضل آپ پر هے. چنانچه الله كے فضل كے اپنے انداز اور اپنے پيمانے هيں. دنيوى ناز ونعم، عيش وعشرت، عزت وشهرت وغيره كو اس كا معيار نهيں سمجھنا چاهيے.

يهاں پر سورت كى پهلى چار آيات كا مطالعه مكمل هو گيا هے. ان آيات ميں حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت كے حوالے سے آپ كے فرائضِ منصبى كا ذكر هے اور اس اُمت كى «آفاقى» حيثيت كى نشاندهى كى گئى هے. يعنى سابقه اُمتِ مسلمه (بنى اسرائيل) يك نسلى (uni racial) اُمت تھى، جبكه موجوده اُمت مسلمه ملٹى نيشنل اُمت هے، جس ميں عربى، فارسى، هندى، چينى وغيره هر قوم اور هر نسل كے لوگ شامل هيں، بلكه اس وقت دنيا ميں شايد هى ايسى كوئى قوم يا نسل موجود هو جس كے افراد اس اُمت ميں شامل نه هوں. ان آيات ميں دوسرى بات يه واضح كى گئى هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كا آله دعوت اور آله تربيت صرف اور صرف قرآن تھا. اسى سے آپ صلى الله عليه وسلم نے لوگوں كو اكٹھا كيا اور اسى سے انهيں انقلابى جدوجهد اور جهاد وقتال كے ليے تيار كيا.

UP
X
<>