May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 68

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ 

اور جب تم اُن لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں تو اُن سے اُس وقت تک کیلئے الگ ہو جاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں ۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں یہ بات بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو

            اب وہ آیت آ رہی ہے جس کا حوالہ سورۃ النساء کی آیت: 140 میں  آیا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ تم پر کتاب میں  یہ بات نازل کر چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے پاس مت بیٹھو…،، ایمان کا کم از کم تقاضا ہے کہ ایسی محفل سے احتجاج کے طور پر واک آؤٹ تو ضرور کیا جائے۔

آیت 68:    وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ:   ’’اور جب تم دیکھو لوگوں  کو کہ وہ ہماری آیات میں  مین میخ نکال رہے ہیں  تو ان سے کنارہ کش ہو جاؤ،،

            اردو میں  ’’غور وخوض،، کی ترکیب کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ ’’غور ،، اور’’ خوض،،  دونوں  عربی زبان کے الفاظ ہیں اورمعانی کے اعتبار سے دونوں  کی آپس میں  مشابہت ہے۔ «غور»  مثبت انداز میں  کسی چیز کی تحقیق کرنے کے لیے بولا جاتا ہے جب کہ «خوض»  منفی طور پر کسی معاملے کی چھان بین کرنے اور خواہ مخواہ میں  بال کی کھال اُتارنے کے معنی دیتا ہے۔

            حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ:   ’’یہاں  تک کہ وہ کسی اور بات میں  لگ جائیں ۔ ،،

            جب کسی محفل میں  لوگ اللہ اور اس کی آیات کا تمسخر اڑا رہے ہو ں تو ان سے کنارہ کشی کر لو،  اور جب وہ کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرنے لگیں  تو پھر تم ان کے پاس جا سکتے ہو۔

            وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ:   ’’ اور اگر تمہیں  شیطان بھلا دے تو یاد آ جانے کے بعد ایسے ظالموں  کے ساتھ مت بیٹھو۔ ،،

            یعنی کسی محفل میں  گفتگو شروع ہوئی اور کچھ دیر تک تمہیں  احساس نہیں  ہوا کہ یہ لوگ کس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، لیکن جونہی احساس ہو جائے کہ ان کی گفتگو اور اندازِ گفتگو قابل ِ اعتراض ہے تو احتجاج کرتے ہوئے فوراً وہاں  سے واک آؤٹ کر جاؤ۔ اب چونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے تمہارا ان کے پاس جانا ایک ضرورت ہے لہٰذا ایسی محفلوں  کے بارے میں  کسی بہتر صورت حال کے منتظر رہو،  اور جب ان لوگوں  کا رویہ مثبت ہو تو ان کے پاس دوبارہ جانے میں  کوئی حرج نہیں۔ یعنی وہی ’’قَا لُــوْا سَلٰـمًا،،  والا انداز ہونا چاہیے کہ علیحدہ بھی ہوں  تو لٹھ مار کر نہ ہوا جائے بلکہ چپکے سے،  متانت کے ساتھ کنارہ کر لیا جائے۔ 

UP
X
<>