May 3, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 26

وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ وَإِن يُهْلِكُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ 

اور یہ دوسروں کو بھی اس (قرآن) سے روکتے ہیں ، اور خود بھی اس سے دُور رہتے ہیں ۔ اور (اس طرح) وہ اپنی جانوں کے سوا کسی اور کو ہلاکت میں نہیں ڈال رہے، لیکن ان کو احساس نہیں ہے

آیت 26:   وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْؤنَ عَنْہُ:   ’’ اور وہ اس سے روکتے بھی ہیں اور خود بھی رُک جاتے ہیں ۔،،

            یہا ں آپس میں  ملتے جلتے دو افعال استعمال ہوئے ہیں ، ایک کا مادہ ’ ن ه ی،  ہے اور دوسرے کا ’ن ء ی ،  ہے۔ نَھٰی یَنْھٰی (روکنا)  تو معروف فعل ہے اور ’’نہی،،  کا لفظ اردو میں  بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا  یَنْہَوْنَ عَنْہُ:   کے معنی ہیں  ’’وہ روکتے ہیں اس سے،،۔  کس کو روکتے ہیں؟ اپنے عوام کو۔ ان کی لیڈری اور سرداری عوام کے بل پر ہی تو ہے۔ عوام برگشتہ ہو جائیں  گے تو اُن کی لیڈری کہاں  رہے گی۔ عوام کو اپنے قابو میں  کرنا اور ان کی عقل اور سمجھ پر اپنا تسلط قائم رکھنا ایسے نام نہاد لیڈروں کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک طرف تو وہ اپنے عوام کو راہِ ہدایت اختیار کرنے سے روکتے ہیں  اور دوسری طرف وہ خود اس سے گریز اور پہلو تہی کرتے ہیں ۔ نَأی یَنْأی نَأْیًا کا مفہوم ہے: دور ہونا،  کنی کترانا، جیسے سورہ بنی اسرائیل (آیت: 83)  میں  فرمایا: وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰبِجَانِبِہ.   ’’اور انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس پر انعام کرتے ہیں  تو منہ پھیر لیتا اور پہلو تہی کرتا ہے،،۔  چنانچہ  یَنْؤنَ عَنْہُ.  کے معنی ہیں:  ’’وہ اس سے گریز کرتے ہیں،  کنی کتراتے ہیں ۔،،

            وَاِنْ یُّہْلِکُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ:   ’’اور وہ نہیں  ہلاک کر رہے کسی کو سوائے اپنے آپ کے، لیکن انہیں  اس کا احساس نہیں  ہے۔،، 

UP
X
<>