May 3, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 25

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا حَتَّى إِذَا جَآؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَذَآ إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ 

اور اِن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں ، مگر (چونکہ یہ سننا طلبِ حق کے بجائے ضد پر اَڑے رہنے کیلئے ہوتا ہے، اس لئے) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں ، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کر دیا ہے۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کیلئے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے لوگوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں

آیت25:  وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَـیْکَ:   ’’اور (اے نبی)  ان میں  سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں  جو آپ کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔،،

            مکہ میں  قریش کے سرداروں  کے لیے جب عوام کو ایمان لانے سے روکنا مشکل ہو گیا تو انہوں  نے بھی علماء یہود کی طرح ایک ترکیب نکالی۔ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ آ کر حضور کی مجلس میں بیٹھتے اور بڑے انہماک سے کان لگا کر آپ کی باتیں  سنتے۔ وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم سب کچھ بڑی توجہ سے سن رہے ہیں ، تا کہ عام لوگ دیکھ کر یہ سمجھیں  کہ واقعی ہمارے ذی فہم سردار یہ باتیں  سننے،  سمجھنے اور ماننے میں  سنجیدہ ہیں،  مگر پھر بعد میں  عوام میں  آ کر ان باتوں  کو رد کر دیتے۔ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ ان کی ایک چال تھی،  تاکہ عوام یہ سمجھیں  کہ ہمارے یہ سردار سمجھدار اورذہین ہیں ،  یہ لوگ شو ق سے محمد کی محفل میں جاتے ہیں  اورپورے انہماک سے ان کی باتیں سنتے ہیں، پھر اگر یہ لوگ اس دعوت کو سننے اور سمجھنے کے بعد رد کر ر ہے ہیں  توآخر اس کی کوئی علمی اور عقلی وجوہات تو ہوں  گی۔ لہٰذا آیت زیر ِنظر میں  ان کی اس سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی ان میں  سے کچھ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں  اور آپ کی باتیں  بظاہر بڑی توجہ سے کان لگا کر سنتے ہیں ۔

            وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا:   ’’حالانکہ ہم نے ان کے دلوں  پر پردے ڈال دیے ہیں  کہ وہ ان کو سمجھ نہیں  سکتے اور ان کے کانوں  کے اندر ہم نے ثقل پیدا کر دیا ہے۔ اور اگر یہ ساری نشانیاں (جو یہ مانگ رہے ہیں)  بھی دیکھ لیں  تب بھی ان پر ایمان نہیں لائیں  گے۔،،

             اللہ نے ان کے دلوں  اور دماغوں  پر یہ پردے کیوں  ڈال دیے؟ یہ سب کچھ اللہ کی اس سنت کے مطابق  ہے کہ جب نبی کے مخاطبین اس کی دعوت کے مقابلے میں  حسد، تکبر اور تعصب دکھاتے ہوئے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں  تو ان کی سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لی جاتی ہیں۔  جیسے سورۃ البقرۃ (آیت: 7)  میں فرمایا گیا: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۔  لہٰذا ان کا بظاہر توجہ سے نبی کی باتوں  کو سننا ان کے لیے مفید نہیں  ہو گا۔

            حَتّٰیٓ اِذَا جَآؤُوْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ:   ’’یہاں  تک کہ (اے نبی)  جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں  تو آپ سے جھگڑا (اور مناظرہ)  کرتے ہیں (اور)  کافر کہتے ہیں  کہ یہ (قرآن جو آپ سنا رہے ہیں)  کچھ بھی نہیں  صرف پہلے لوگوں  کی کہانیاں ہیں ۔،،

            یہ جو کچھ آپ ہمیں  سنا رہے ہیں  یہ پرانی باتیں  اور پرانے قصے ہیں، جو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہودیوں  اور نصرانیوں  سے سن رکھے ہیں۔

UP
X
<>