May 7, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 19

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بِيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُل لاَّ أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ 

کہو : ’’ کونسی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کیلئے سب سے اعلیٰ درجے کی ہو ؟ ‘‘ کہو : ’’ اﷲ ! (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں بھی ڈراؤں ، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اﷲ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ؟ ‘‘ کہہ دو کہ : ’’ میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ ‘‘ کہہ دو کہ : ’’ وہ تو صر ف ایک خدا ہے، اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں ۔ ‘‘

آیت 19:   قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَہَادَۃً قُلِ اللّٰہُ شَہِیْدٌم بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ:   ’’(اے نبی !ان سے)  کہیے کون سی چیز ہے جو گواہی میں  سب سے بڑی ہے؟(پھر خود ہی)  کہیے کہ اللہ (کی گواہی سب سے بڑی ہے) ! وہ میرے اور تمہارے مابین گواہ ہے۔،،

            وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ:   ’’اور میری جانب یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں  تمہیں  بھی خبردار کر دوں  اس کے ذریعے سے اور اُس کو بھی جس تک یہ پہنچ جائے۔،،

            یہ گویا اس سورۃ کے عمود کا عکس ہے۔  میں  پہلے بتا چکا ہوں  کہ اس سورۃ کا عمود یہ مضمون ہے کہ مشرکین کے مطالبے پر ہم کسی قسم کا حسی معجزہ نہیں  دکھائیں  گے،  کیونکہ اصل معجزہ یہ قرآن ہے۔ اے نبی ہم نے آپ پر یہ قرآن اُتار دیا،  آپ تبشیر،  انذار اور تذکیر کے فرائض اسی قرآن کے ذریعے سے سر انجام دیں ۔ جس کے اندر صلاحیت ہے ، جو طالب ِحق ہے،  جو ہدایت چاہتا ہے،  وہ ہدایت پا لے گا۔ باقی جس کے دل میں  کجی ہے،  ٹیڑھ ہے،  تعصب ،  ضد اور ہٹ دھرمی ہے،  حسد اور تکبر ہے،  آپ اس کودس لاکھ معجزے دکھا دیجیے وہ نہیں  مانے گا۔  کیا علماء یہود حضرت مسیح کے معجزے دیکھ کر آپ پر ایمان لے آئے تھے؟ کیسے کیسے معجزے تھے جو انہیں  دکھائے گئے! آپ گارے سے پرندے کی شکل بنا کر پھونک مارتے اور وہ اڑتا ہوا پرندہ بن جاتا۔ یہ احیائے موتیٰ اور خلق ِحیات تو وہ چیزیں  ہیں  جو بالخصوص اللہ تعالیٰ کے اپنے (exclusive)  اَفعال ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ  کے ہاتھ پر یہ نشانیاں  بھی ظاہر کر دیں،  لیکن انہیں  دیکھ کر کتنے لوگوں  نے مانا؟  لہٰذا ہم ایسا کوئی معجزہ نہیں  دکھائیں  گے۔ البتہ آپ محنت اور کوشش کرتے جایئے،  دعوت و تبلیغ کرتے جایئے۔

            یہاں  پر لفظ  بِہ خاص پر نوٹ کیجیے۔فرمایا کہ یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں  خبردار کر دوں تمہیں  اس کے ذریعے سے ( بِہ)  یعنی میرا انذار قرآن کے ذریعے سے ہے۔  مزید فرمایا: وَمَنْ بَلَغَ.  ’’اور جس تک یہ پہنچ جائے ،،۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں  تو تمہیں  پہنچا رہا ہوں ،  ا ب جو اُمت بنے گی وہ آگے پہنچائے گی۔ جس تک یہ قرآ ن پہنچ گیا اُس تک رسول اللہ کا انداز پہنچ گیا، اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا، کیونکہ حضور اپنے ہی زمانے کے لیے رسول بن کر نہیں  آئے تھے،  آپ تو تا قیامت رسول ہیں ۔ یہ آپ ہی کی رسالت کا دور چل رہا ہے۔ جو انسان بھی قیامت تک دنیا میں  آئے گا وہ آپ کی اُمت ِدعوت میں  شامل ہے،  اُس تک قرآن کا پیغام پہنچانا اب اُمت ِمحمد کے ذمہ ہے۔

            اب آ رہا ہے ایک متجسسانہ سوال (searching question)،  جیسا کہ میں  نے ابتدا میں  عرض کیا تھا ،  جب آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا مخالف جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اپنے دل کے یقین سے نہیں  کہہ رہا ہے ،  بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر کہہ رہا ہے،  تو پھر اس کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر متجسسانہ (searching)  انداز میں  اس سے سوال کیا جاتا ہے۔  یہی انداز یہاں  اختیار کیا گیا ہے۔ فرمایا:

             اَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخْری:   ’’کیا واقعی تم لوگ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کچھ اور بھی الٰہ ہیں ؟،،

            قُلْ لَّآ اَشْہَدُ:   ’’کہہ دیجیے ( اگر تم یہ گواہی دیتے بھی ہو تو)  میں  اس کی گواہی نہیں  دے سکتا۔،،

            تم ایسا کہو تو کہو،  لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں  ہے کہ ایسی خلافِ عقل اور خلاف ِفطرت بات کہہ سکوں ۔

            قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ:   ’’کہہ دیجیے وہ تو بس ایک ہی الٰہ ہے اور میں  بَری ہوں  ان تمام چیزوں  سے جنہیں  تم شریک ٹھہرا رہے ہو۔،،

            واضح رہے کہ اس سورۃ کا زمانہ نزول مکی دور کا آخری زمانہ ہے۔ اس وقت تک مدینہ میں  بھی خبریں  پہنچ چکی تھیں  کہ مکہ کے اندر ایک نئی دعوت بڑے زور و شور اور شدو مد کے ساتھ اُٹھ رہی ہے۔  چنانچہ مدینہ کے یہودیوں  کی طرف سے سکھائے ہوئے سوالات بھی مکہ کے لوگ حضور سے امتحاناً کرتے تھے۔ مثلاً آپ ذرا بتائیے کہ ذو القرنین کون تھا؟ اگر آپ نبی ہیں  تو بتائیے کہ اصحابِ کہف کا قصہ کیا تھا؟ اور یہ بھی بتائیے کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟ یہ سب سوالات اور ان کے جوابات سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں آئیں  گے۔  مدینہ کے یہودیوں  تک اُن کے سوالات کے جوابات سے متعلق تمام خبریں  بھی پہنچ چکی تھیں  اور ان کے سمجھ دار اور اہل علم لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ وہی نبی ہیں  جن کے ہم منتظر تھے۔ مگر یہ لوگ یہ سب کچھ سمجھنے اور جان لینے کے باوجود محروم رہ گئے۔

UP
X
<>