May 19, 2024

قرآن کریم > الـطور >sorah 52 ayat 37

أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ 

کیا تمہارے پروردگار کے خزانے ان کے پاس ہیں ، یا وہ داروغہ بنے ہوئے ہیں؟

آيت 37:  أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ:  «كيا ان كے قبضه قدرت ميں آپ كے رب كے خزانے هيں يا يه داروغه هيں؟»

اس آيت كو پڑھتے هوئے مشركينِ مكه كا وه اعتراض بھى ذهن ميں تازه كر ليں جس كا ذكر سورة الزخرف كى آيت: 31 ميں هوا هے كه الله تعالى كو اگر وحى بھيجنا تھى اور اپنا كلام دنيا ميں نازل كرنا هى تھا تو اس كے ليے اس كى نظر بنو هاشم كے ايك يتيم شخص هى پر كيوں پڑى، جو نه تو سرمايه دار هے اور نه هى مكه كے قبائلى نظام كے اعلى عهدوں (hierarchy) ميں سے كوئى عهده اس كے پاس هے! عرب كے قبائلى معاشرے ميں كسى شخصيت كے «بڑے» هونے كا ايك معيار يه بھى تھا كه وه كسى بڑے عهدے پر فائز هو. جيسے حضرت ابو بكر صديق اس زمانے ميں مقدماتِ قتل كے فيصلے كرنے پر مامور تھے. يه قبائلى نظام كا بهت بڑا اور انتهائى حساس نوعيت كا عهده تھا جس پر حضرت ابو بكر اس زمانے ميں فائز تھے. اس كے علاوه آپ بهت بڑے تاجر اور سرمايه دار بھى تھے. اس زمانے ميں حضرت ابو بكر صديق كے سرمائے كى ماليت چاليس هزار درهم كے لگ بھگ تھى. اس حوالے سے يه حقيقت بھى تاريخ كا حصه هے كه ايمان لانے كے بعد آپ نے يه سارا سرمايه الله تعالى كى راه ميں لٹا ديا اور جب آپ هجرت كے ليے مدينه روانه هوئے تو پيچھے گھر والوں كے ليے كچھ بھى نه تھا.

بهرحال مشركينِ مكه بار بار يه اعتراض كرتے تھے كه آخر الله تعالى نے اس منصب كے ليے ان دو بڑے شهروں (مكه اور طائف) ميں سے كسى بڑى شخصيت كو كيوں منتخب نهيں كيا: (وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ) {الزخرف: 31} «اور كهنے لگے كه كيوں نهيں اتارا گيا يه قرآن ان دو بستيوں ميں سے كسى عظيم شخص پر؟» الله تعالى نے ان كے اس اعتراض كا جواب ديتے هوئے فرمايا: (أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ) {الزخرف: 32} «كيا آپ كے رب كى رحمت كو يه لوگ تقسيم كريں گے؟» آيت زير مطالعه ميں بھى حضور كے خلاف اسى نوعيت كے اعتراضات كا جواب ديا گيا هے كه الله سبحانه وتعالى كے خزانے كيا ان لوگوں كے قبضه قدرت ميں هيں؟ اور كيا الله تعالى اپنى رحمت كے فيصلے كرنے ميں ان لوگوں كى مرضى ومنشا كا پابند هے؟

UP
X
<>