May 19, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 38

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا جَزَاء بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 

اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، تاکہ ان کو اپنے کئے کا بدلہ ملے، اور اﷲ کی طرف سے عبرتناک سزا ہو۔ اور اﷲ صاحبِ اقتدار بھی ہے، صاحبِ حکمت بھی

آیت 38:   وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا:  ،،اور چور خواہ مرد ہو یا عورت،  ان دونوں  کے ہاتھ کاٹ دو،،

             یعنی چور کا ایک ہاتھ کاٹ دو۔

             جَزَآءً بِمَا کَسَبَا:  ،،یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا،،

             نَـکَالاً مِّنَ اللّٰہِ:   ،،اور عبرت ناک سزا ہے اللہ کی طرف سے۔ ،،

            دیکھئے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں  چیلنج کرتا ہے کہ اس کلام پر باطل حملہ آور نہیں  ہو سکتا کسی بھی جانب سے (حٰمٓ السجدہ: 42)۔  ذرا ملاحظہ کیجیے اس آیت کے ضمن میں  غلام احمد پرویز صاحب کہتے ہیں  کہ یہاں  چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں  کسی کو چوری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ تو ہم بھی چاہتے ہیں  کہ ایسا نظام ہو،  ریاست کی طرف سے کفالت ِعامہ کی سہولت موجود ہو تاکہ کوئی شخص مجبوراً چوری نہ کرے، لیکن ،،فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا،، کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔  اور اگر فرض کر لیں  کہ ایسا ہی ہے تو پھر  جَزَآءً بِمَا کَسَبَا:  (یہ بدلہ ہے ان کی اپنی کمائی کا)  کی کیا تاویل ہو گی؟ یعنی جو کمائی انہوں  نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کر دیا جائے؟ اس کے بعد پھر  «نَـکَالاً مِّنَ اللّٰہِ»   کے الفاظ مزید آئے ہیں ۔ ،،نکال،، کہتے ہیں  عبرت ناک سزا کو۔  تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہو گی؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معانی و مفہوم کی حفاظت کے لیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھائے گئے ہیں!

            دراصل حدود وتعزیرات کے فلسفے کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے لفظ ،،نکال،، بہت اہم ہے۔  قرآن میں  تعزیرات اور حدود کے سلسلے میں  یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔  یعنی اگر سزا ہو گی تو عبرت ناک ہوگی۔ اسلام میں  شہادت کا قانون بہت سخت رکھا گیا ہے۔  ذرا سا شبہ ہو تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سزا کا نفاذ آسان نہیں۔ لیکن اگر تمام مراحل طے کر کے جرم پوری طرح ثابت ہو جائے تو پھر سزا ایسی دی جائے کہ ایک کو سزا ملے اور لاکھوں  کی آنکھیں  کھل جائیں تاکہ آئندہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔  یہ فلسفہ ہے اسلامی سزاؤں  کا۔  یہ درحقیقت ایک تسدید  (deterrence) ہے جس کے سبب معاشرے سے برائی کا استیصال کرنا ممکن ہے۔ آج امریکہ جیسے (نام نہاد)  مہذب ّمعاشرے میں  بھی آئے دن انتہائی گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب اور سزا کا نظام درست نہیں۔  لوگ جرم کرتے ہیں،  سزا ہوتی ہے،  جیل جاتے ہیں،  کچھ دن وہاں  گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں،  پھر جرم کرتے ہیں،  پھر جیل چلے جاتے ہیں۔ جیل کیا ہے؟ سرکاری مہمان داری ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں  میں  جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

             وَاللّٰہُ عَزِیْــزٌ حَکِیْمٌ:  ،،اور اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔،،

UP
X
<>