May 19, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 35

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو، اور اس تک پہنچنے کیلئے وسیلہ تلاش کرو، اور اس کے راستے میں جہاد کرو۔ اُمید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی

آیت 35:    یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّـقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَـیْہِ الْوَسِیْلَۃَ:  ،،اے اہل ایمان، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی جناب میں  اس کا قرب ُتلاش کرو،،

            یہاں  لفظ ،،وسیلہ،، قابل ِغور ہے اور اس لفظ نے کافی لوگوں  کو پریشان بھی کیا ہے۔  لفظ ،،وسیلہ،، اردو میں  تو ،،ذریعہ،، کے معنی میں  آتا ہے،  یعنی کسی تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بنا لینا،  سفارش کے لیے کسی کو وسیلہ بنا لینا۔ لیکن عربی زبان میں ،،وسیلہ،، کے معنی ہیں ،،قرب،،۔  بعض الفاظ ایسے ہیں  جن کاعربی میں  مفہوم کچھ اور ہے جبکہ اردو میں  کچھ اور ہے۔ جیسے لفظ ،،ذلیل،، ہے،  عربی میں  اس کے معنی ،،کمزور،، جبکہ اردو میں ،،کمینے،، کے ہیں۔  جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں: وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ.   (آل عمران: 123)  یعنی اے مسلمانو! یاد کرو اللہ نے تمہاری مدد کی تھی بدر میں  جب کہ تم بہت کمزور تھے۔  اب اگر یہاں  ذلیل کا ترجمہ اردو والا کر دیا جائے تو ہمارے ایمان کے لالے پڑ جائیں  گے۔ اسی طرح عربی میں ،،جہل،، کے معنی جذباتی ہونا ہے،  اَن پڑھ ہونا نہیں ۔  ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل یعنی جذباتی،  اکھڑ مزاج ہو سکتا ہے لیکن اردو میں  جاہل عالم کا متضاد ہے،  یعنی جو اَن پڑھ ہو۔  اسی طرح کا معاملہ لفظ ،،وسیلہ،، کا ہے۔ اس کا اصل مفہوم ،،قرب،، ہے اور یہاں بھی یہی مراد لیا جائے گا۔  یہاں  ارشاد ہوا ہے:

            ،،اے ایمان والو،  اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (آگے بڑھ کر) اس کا قرب تلاش کرو،،

             تقویٰ کے معنی ہیں  اللہ کے غضب سے،  اللہ کی ناراضگی سے اور اللہ کے احکام توڑنے سے بچنا۔   یہ ایک منفی محرک ہے،  جبکہ قربِ الٰہی کی طلب ایک مثبت محرک ہے کہ اللہ کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔  لیکن اس کے قرب کا ذریعہ کیا ہو گا؟

             وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ:  ،،اور اُس کی راہ میں  جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ،،

            اس سے بات بالکل واضح ہو گئی کہ تقرب الی اللہ کے لیے جہاد کرو۔  تقویٰ شرطِ لازم ہے۔  یعنی پہلے جو حرام چیزیں  ہیں  ان سے اپنے آپ کو بچاؤ، جن چیزوں  سے روک دیا گیا ہے ان سے رک جاؤاور اللہ کی نافرمانی سے باز آ جاؤ۔ اور پھر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں  جدوجہد کرو۔ 

UP
X
<>