May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 34

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا 

مرد عورتوں کے نگراں ہیں، کیونکہ اﷲ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ۔ چنانچہ نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں ، مرد کی غیر موجودگی میں اﷲ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کاروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اﷲ سب کے اُوپر، سب سے بڑا ہے

            اب آ رہی ہے اصل میں وہ کانٹے دار آیت جو عورتوں کے حلق سے بہت مشکل سے اُترتی ہے‘ کانٹا بن کر اٹک جاتی ہے۔ اب تک اس ضمن میں جو باتیں آئیں وہ دراصل اس کی تمہید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پہلی تمہید سورۃ البقرۃ میں آ چکی ہے:  وَلَـھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ: (آیت: 228)  ’’اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق‘ البتہ مردوں کے لیے اُن پر ایک درجہ فوقیت کا ہے‘‘۔  یہ کہہ کر بات چھوڑ دی گئی۔ اس کے بعد ابھی ہم نے پڑھا: وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ. یہ ہدایت عورتوں کے لیے مزید ذہنی تیاری کی غرض سے دی گئی۔ اور اب دو ٹوک انداز میں ارشاد ہو رہا ہے:   ّ   ُ

 آیت 34:  اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ: ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘   َ

            یہ ترجمہ میں زور دے کر کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہاں «قَامَ»  «عَلٰی» کے صلہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ قَامَ  ’بِ‘ کے ساتھ آئے گا تو معنی ہوں گے ’’کسی شے کو قائم کرنا‘‘۔ اسی سورہ مبارکہ میں آگے چل کر یہ الفاظ آئیں گے:  کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ. ’’عدل کو قائم کرنے والے بن کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘ جبکہ قَامَ عَلٰی کا مفہوم ہے کسی کے اوپر مسلط ہونا۔ّ یعنی حاکم اور منتظم ہونا۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ سے یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ گھر کے ادارے میں حاکم ہونے کی حیثیت مرد کو حاصل ہے‘ سربراہِ خاندان مرد ہے‘ عورت نہیں ہے۔ عورت کو بہرحال اس کے ساتھ ایک وزیر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ یوں تو ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے۔ گھر کے اندر مرد بھی یہ چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن آخر کار کس کی بات چلے گی؟ یا تو دونوں باہمی رضامندی سے کسی مسئلے میں متفق ہو جائیں‘ بیوی اپنے شوہر کو دلیل سے‘ اپیل سے‘ جس طرح ہو سکے قائل کرلے تو معاملہ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن اگر معاملہ طے نہیں ہو رہا تو اب کس کی رائے فیصلہ کن ہو گی؟ مرد کی! عورت کی رائے جب ُمسترد ہو گی تو اُسے اس سے ایک صدمہ تو پہنچے گا۔ اسی صدمے کا اثر کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت میں نسیان کا مادہ زیادہ رکھ دیا ہے‘ جو ایک safety valve کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانونِ شہادت میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا نصاب رکھا گیا ہے ’’تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری یاد کرا دے‘‘۔ اس پر ہم سورۃ البقرۃ: (آیت: 282) میں بھی گفتگو کر چکے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گھر کے ادارے کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ مرد اگر اپنی اس حیثیت کا غلط استعمال کرتا ہے‘  عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اللہ کے ہاں بڑی سخت پکڑ ہو گی۔ آپ کو ایک اختیار دیا گیا ہے اور آپ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں‘ اس کو ظلم کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کو مل جائے گی۔

             بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ: ’’بسبب اُس فضیلت کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے‘‘

            مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے‘ جن کی بنا پر قوامیت کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے۔

             وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ: ’’اور بسبب اس کے کہ جو وہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال۔‘‘

            اسلام کے معاشرتی نظام میں کفالتی ذمہ داری تمام تر مرد کے اوپر ہے۔ شادی کے آغاز ہی سے مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ شادی اگرچہ مرد کی بھی ضرورت ہے اور عورت کی بھی‘ لیکن مرد مہر دیتا ہے‘ عورت مہر وصول کرتی ہے۔ پھر گھر میں عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے ہے۔

             فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ: ’’پس جو نیک بیویاں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں‘‘

            مرد کو قوامیت کے منصب پر فائز کرنے کے بعد اب نیک بیویوں کا رویہ بتایاجا رہا ہے۔  یوں سمجھئے کہ قرآن کے نزدیک ایک خاتونِ خانہ کی جو بہترین روش ہونی چاہیے وہ یہاں تین الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے:   فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ:۔

             حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ: ’’غیب میں حفاظت کرنے والیاں‘‘

            َوہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ ظاہر ہے مرد کا مال تو گھر میں ہی ہوتا ہے‘ وہ کام پر چلا گیا تو اب وہ بیوی کی حفاظت میں ہے۔ اسی طرح بیوی کی عصمت درحقیقت مرد کی عزت ّہے۔ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح مرد کے راز ہوتے ہیں‘  جن کی سب سے زیادہ بڑھ  کر رازدان بیوی ہوتی ہے۔ تو یہ حفاظت تین اعتبارات سے ہے‘ شوہر کے مال کی‘  شوہر کی عزت و ناموس کی‘ اور شوہر کے رازوں کی ۔

              بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ: ’’اللہ کی حفاظت سے۔‘‘

            اصل حفاظت و نگرانی تو اللہ کی ہے‘ لیکن انسان کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے رازق تو اللہ ہے‘  لیکن انسان کو کام کر کے رزق کمانا پڑتا ہے۔

             وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ: ’’اور وہ خواتین جن کے بارے میں تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو‘‘

            ّاگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ سرکشی‘ سرتابی‘ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش پر چل پڑی ہے‘ شوہر کی بات نہیں مان رہی بلکہ ہر صورت میں اپنی بات منوانے پر مصر ہے اور اس طرح گھر کی فضا خراب کی ہوئی ہے تو یہ نشوز ہے۔ اگر عورت اپنی اس حیثیت کو ذہنا ً تسلیم نہ کرے کہ وہ شوہر کے تابع ہے تو ظاہر بات ہے کہ مزاحمت (friction) ہو گی اور اس کے نتیجے میں گھر کے اندر ایک فساد پیدا ہو گا۔ ایسی صورت حال میں مرد کو قوّام ہونے کی حیثیت سے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں‘ جن کے تین مراحل ہیں:  ُ  

             فَعِظُوْہُنَّ: ’’پس ان کونصیحت کرو‘‘

            پہلا مرحلہ سمجھانے بجھانے کا ہے‘ جس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل ہے۔

             وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْْمَضَاجِع: ’’اور ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو‘‘

            اگر نصیحت و ملامت سے کام نہ چلے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان سے اپنے بستر علیحدہ کر لو اور اس کے ساتھ تعلق زن و شو کچھ عرصہ کے لیے منقطع کر لو۔   َ

              وَاضْرِبُوْہُنَّ: ’’اور ان کو مارو۔‘‘

            اگر اب بھی وہ اپنی روش نہ بدلیں تو مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ اس ضمن میں آنحضور  نے ہدایت فرمائی ہے کہ چہرے پر نہ مارا جائے اور کوئی ایسی مار نہ ہو جس کا مستقل نشان جسم پر پڑے۔ مذکورہ بالا تادیبی ہدایات اللہ کے کلام کے اندر بیان فرمائی گئی ہیں اور انہیں بیان کرنے میں ہمارے لیے کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کو درست رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پیش آئے تو انہیں اختیار کرنا ہو گا۔

             فَاِنْ اَطَعْنَـکُمْ فَلاَ تَـبْغُوْا عَلَـیْہِنَّ سَبِیْلاً: ’’پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف (خواہ مخواہ زیادتی کی) راہ مت تلاش کرو۔‘‘

            اگر عورت سرکشی و سرتابی کی روش چھوڑ کر اطاعت کی راہ پر آ جائے تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں۔ اس سے انتقام لینے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔

             اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے‘ بہت بڑا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>