May 2, 2024

قرآن کریم > الصّافّات >sorah 37 ayat 11

فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لاَّزِبٍ

اب ذرا ان (کافروں ) سے پوچھو کہ ان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے یا ہماری پیدا کی ہوئی دوسری مخلوقات کی؟ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے

آیت ۱۱   فَاسْتَفْتِہِمْ اَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا: ’’تو (اے نبی!) ان سے پوچھئے کہ کیا ان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے یا وہ کچھ جو ہم نے پیدا کیا ہے!‘‘

        یہ کفار و مشرکین کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد ان کا پھر سے زندہ ہو جانا کیسے ممکن ہے؟ آپ ان سے پوچھیں کہ تم جیسے انسانوں کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس وسیع و عریض کائنات کو بنانا؟ اور یہ کہ جس اللہ نے یہ کائنات پیدا کی ہے‘ اس کے اندر سورج اور چاند کا نظام بنایا ہے‘ سیاروں ‘ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیائیں آباد کی ہیں‘ کیا تم اس اللہ کے بارے میں خیال کرتے ہو کہ وہ تمہیں پھر سے پیدا نہیں کر سکے گا!

           اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ: ’’ان کو تو ہم نے پیدا کیا ہے ایک لیس دار گارے سے۔‘‘

        یعنی وہ ایسا گارا تھا جس میں عمل تخمیر (fermentation) کی وجہ سے چپچپاہٹ اور لیس پیدا ہو چکی تھی۔ واضح رہے کہ انسان کے مادۂ تخلیق کے بارے میں قرآن نے مختلف مقامات پر تُراب (مٹی) ‘ طِین (گارا)‘ طِینٍ لاَّزِب (لیس دار گارا)‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون (سڑاند والا گارا) اور صلصالٍ کالفخّار (ٹھیکری جیسی کھنکھناتی ہوئی مٹی) کے الفاظ کا ذکر کیاہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : الحجر:۲۶ کی تشریح)۔

UP
X
<>