May 19, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 8

أَفْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ بَلِ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ

پتہ نہیں اس شخص نے اﷲ پر جھوٹ باندھا ہے، یا اُسے کسی طرح کا جنون لاحق ہے؟‘‘۔ نہیں ! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ خود عذاب میں اور پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں

آیت ۸   اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا: ’’کیا اس نے جھوٹ باندھا ہے اللہ پر‘‘

        کیا محمد  نے اتنی بڑی جسارت کی ہے کہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے؟ کہنے کو تو وہ ایک دوسرے سے یوں کہتے تھے اور خود اپنے آپ سے بھی یہ سوال کرتے تھے لیکن اصل حقیقت کو وہ خوب سمجھتے تھے کہ آپؐ کی طرف سے جھوٹ گھڑنے کا کوئی ہلکا سا بھی امکان نہیں تھا۔ اندر سے ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ دیکھو! اس شخص کی پچھلے چالیس برس کی زندگی تمہارے سامنے ہے۔ ان کی سیرت و کردار سے تم خوب واقف ہو۔ تم نے خود انہیں الصادق اور الامین کا خطاب دیا ہے۔ تو بھلا ایک ایسا شخص جس نے اپنی معمول کی زندگی میں کبھی کوئی چھوٹا سا بھی جھوٹ نہ بولا ہو، آخر اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے اور وہ بھی اللہ کے بارے میں !

        اَمْ بِہٖ جِنَّــۃٌ: ’’یا اسے جنون ہو گیا ہے!‘‘

        کبھی کہتے ممکن ہے کہ ان پر آسیب کا سایہ آ گیا ہو یا ان کا دماغی توازن خراب ہو گیا ہو، اس لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہوں ۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کا اپنا کوئی قصور نہیں اور انہیں جھوٹ کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اس الزام پر بھی ان کے ضمیر پکار اٹھتے کہ اس پر غور تو کرو! کیا اس کلام میں تم لوگوں کو واقعی دیوانگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ چنانچہ واقعتا انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ماجرا آخر ہے کیا؟

        جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، اگر بارہ سالہ مکی دور کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو مکی سورتوں کے درمیانی گروپس (سورۃ الفرقان تا سورۃ السجدۃ اور سورۂ سبا تا سورۃ الاحقاف) میں ، سورۃ الشعراء کو چھوڑ کر کہ وہ ابتدائی دور کی سورت ہے، باقی تمام وہ سورتیں ہیں جو درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور ان سب سورتوں کے مطالعہ کے دوران کفارِ مکہ کی یہی کیفیت سامنے آتی ہے۔ یعنی اس دور میں وہ رسول اللہ  کے بارے میں سخت اُلجھن اور شش و پنج کا شکار تھے۔ کبھی وہ آپؐ کو شاعر کہتے، کبھی جادوگر اور کبھی مجنون قرار دیتے، مگر آپؐ کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی موقف اپنانے سے قاصر تھے۔ البتہ آخری چار سالہ دور میں نازل ہونے والی پندرہ سورتوں یعنی سورۃ الانعام، سورۃ الاعراف اور سورۂ یونس تا سورۃ المؤمنون (اس گروپ میں بھی سورۃ الحجر ایک ایسی سورت ہے جو ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ان کے اندر polarization ہو گئی تھی۔ یعنی مکی دور کے آخری سالوں میں حضور  کے بارے میں ان کے مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے تھے۔

        بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ فِی الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ: ’’بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب میں اور دُور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔‘‘

        دُنیا میں بھی ان کی جان ضیق (تنگی) میں آئی ہوئی ہے اور وہ بڑی دُور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں آخرت کا یقین ہوتا تو یہ بات جو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی، بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی۔ 

UP
X
<>