May 17, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 33

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو، اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا، اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ اداکرو، اور اﷲ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کرو۔ اے نبی کے اہلِ بیت ! (گھر والو) اﷲ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دُور رکھے، اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو

آیت ۳۳    وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ: ’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو‘‘

        ایک مخلوط معاشرے کو اسلامی معاشرے میں بدلنے کے سلسلے میں دوسری ہدایت یہ ہے کہ عورت کا اصل اور مستقل مقام اس کا گھر ہے۔ چنانچہ اسے چاہیے کہ وہ گھر کے اندر رہ کرماں، بہن، بیٹی یا بیوی کا کردار خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی کوشش کرے۔

        وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی: ’’اور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح‘‘

        تبرّج کے معنی ہیں نمایاں ہونااور نمائش کرنا۔ یہاں اس سے عورتوں کا بناؤ سنگھار کر کے غیر مردوں کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کا عمل مراد ہے۔ اس عمل کا مقصد عورت کی اس خواہش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں اور وہ ان کی توجہات کا مرکز بنے۔ عربوں کے ہاں تو اپنے تمدن اور طرزِمعاشرت پر بڑھ چڑھ کر فخر کیا جاتا تھا اور وہ فرعون کی طرح اسے ’’مثالی کلچر‘‘ بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی: (طٰہٰ) قرار دیتے ہوں گے، لیکن قرآن نے ان طور طریقوں کو ’’جاہلیت‘‘ کی علامت قرار دیا ہے اور مسلمان خواتین کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود کو اپنے گھروں تک محدود رکھیں اور بن ٹھن کر باہر نکلنے کے طور طریقے ترک کر دیں۔

        وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ: ’’اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند رہو۔‘‘

        اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا: ’’اللہ تو بس یہی چاہتا ہے اے نبیؐ کے گھر والو! کہ وہ دور کر دے تم سے ناپاکی اور تمہیں خوب اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘

        اے نبیؐ کی بیویو! جس طرح محمد ٌرسول اللہ  کی مثالی شخصیت میں امت کے لیے اُسوہ ہے، اسی طرح تمہاری شخصیات کو بھی پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ بننا ہے۔ اس لیے اللہ چاہتا ہے کہ تمہیں ہر طرح کی آلائشوں سے پاک اور صاف کر کے تہذیب ِنفس، تصفیہ ٔقلب اور تزکیہ باطن کا اعلیٰ مرتبہ عطا فرمائے۔

        یہاں پر اَہْلَ الْبَیْتِ کے خطاب کی مخاطب بلاشبہ ازواجِ مطہرات ہیں، کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور اس سے پہلی اور بعدکی آیات میں سارا خطاب انہی سے ہے۔ اس سے پہلے سورۂ ہود کی آیت: ۷۳ میں بھی یہ لفظ (اہل البیت) حضرت ابراہیم کی اہلیہ محترم حضرت سارہؑ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جب فرشتے انسانی شکلوں میں حضرت ابراہیم کے گھر آئے تو انہوں نے حضرت سارہؑ کو مخاطب کر کے یوں کہا: (رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ) ’’ اللہ کی رحمتیں اور اُس کی برکتیں ہوں تم پر اے (نبی ؑکے) گھر والو!‘‘ چنانچہ اس ضمن میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ ’’اہل بیت‘‘ سے اصلاً ازواجِ مطہرات مراد ہیں۔ البتہ حضرت فاطمہ، حضرت علی اور حضرات حسنین کے بارے میں اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ سے مروی حضور کا یہ فرمان: ((اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلَاءِ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیْرًا)) گویا ان شخصیات کو بھی اہل بیت کے دائرے میں شامل کرنے سے متعلق ہے کہ اے اللہ! یہ لوگ بھی میرے اہل ِبیت ہیں، چنانچہ ان سے بھی گندگی دور کر دے اور انہیں پاک کر دے۔ 

UP
X
<>