May 19, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 36

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 

پھر جب ان سے لڑکی پیدا ہوئی تو وہ (حسرت سے) کہنے لگیں : ’’یا رب ! یہ تو مجھ سے لڑکی پید ا ہوگئی ہے ۔ ‘‘ حالانکہ اﷲ کو خوب علم تھا کہ ان کے یہاں کیا پید اہوا ہے ۔ ’’ اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا ۔ میں نے ا س کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطانِ مردود سے حفاظت کیلئے آپ کی پنا ہ میں دیتی ہوں ۔ ‘‘

 آیت 36:    فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُہَآ اُنْثٰی:  «تو جب اسے وضع حمل ہوا تو اس نے کہا اے میرے رب! یہ تو میں ایک لڑکی جَن گئی ہوں۔»

            یعنی میرے ہاں تو بیٹی پیدا ہو گئی ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ بیٹا پیدا ہو گا تو میں ا س کو وقف کر دوں گی۔ اُس وقت تک ہیکل کے خادموں میں کسی لڑکی کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔

             وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ:  «اور اللہ بہتر جانتا تھا کہ اس نے کیا جنا ہے۔»

            اسے کیا پتا تھا کہ اس نے کیسی بیٹی جنی ہے!

              وَلَـیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی:  «اور نہیں ہو گا کوئی بیٹا اس بیٹی جیسا!»

            اس جملے کے دونوں معنی کیے گئے۔ اوّلاً: اگر یہ قول مانا جائے حضرت مر یم کی والدہ کا تو ترجمہ یوں ہو گا: «اور لڑکا لڑکی کی مانند تو نہیں ہوتا»۔ اگر لڑکا ہوتا تو میں اُسے خدمت کے لیے وقف کر دیتی‘ یہ تو لڑکی ہو گئی ہے۔ ثانیاً: اگر اس قول کو اللہ کی طرف سے مانا جائے تو مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی بیٹا ایسا ہو ہی نہیں سکتا جیسی بیٹی تو نے جنم دی ہے۔اور اب مریم کی والدہ کا کلام شروع ہوا:

             وَاِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ:  «اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے»

             وَاِنِّیْ اُعِیْذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّـتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ: «اور (اے پروردگار!)  میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں شیطانِ مردود (کے حملوں)  سے۔»

            اے اللہ! تو اس لڑکی (مریم)  کو بھی اور اس کی آنے والی اولاد کو بھی شیطان کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھیو!

UP
X
<>