May 19, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 33

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ

اﷲ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کر چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی

            سورئہ آل عمران کے نصف اوّل کا دوسرا حصہ ۳۱ آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں خطاب براہِ راست نصاریٰ سے ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جو تم نے حضرت عیسیٰ کو معبود بنا لیا ہے اور تثلیث (Trinity) کا عقیدہ گھڑ لیا ہے یہ سب باطل ہے۔ عیسائیوں کے ہاں دو طرح کی تثلیث رائج رہی ہے   ----  (1. خدا‘ مریم اور عیسیٰ  ----  اور (2. خدا‘ روح القدس اور عیسیٰ ۔ یہاں پر واضح کر دیا گیا کہ یہ جو تثلیثیں تم نے ایجاد کر لی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘ یہ تمہاری کج رَوی ہے۔ تم نے غلط شکل اختیار کی ہے۔ حضرت عیسیٰ بہت برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہاں اُن کی ولادت معجزانہ طریقے پر ہوئی ہے۔ لیکن ان سے متصلاً قبل حضرت یحییٰ  کی ولادت بھی تو معجزانہ ہوئی تھی۔ وہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ہے۔ اور پھر حضرت آدم کی ولادت بھی تو بہت بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ چنانچہ اگر کسی کی معجزانہ ولادت الوہیت کی دلیل ہے تو کیا حضرت آدم اور حضرت یحییٰ بھی الٰہ ہیں؟ تو یہ ساری بحث اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔

 آیت 33:    اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ:  «یقینا اللہ نے ُچن لیا آدم کو‘  نوح کو‘  آلِ ابراہیم  کو اور آلِ عمران کو تمام جہان والوں پر۔»

            «اِصطفاء» کے معنی منتخب کرنے یا چن لینے  (selection) کے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ حضرت آدم  کا بھی «اِصطفاء» ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل موجود ہے جو تخلیق آدم کے ضمن میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پہلے ایک نوع  (species)  وجود میں آئی تھی اور اللہ نے اس نوع کے ایک فرد کو چن کر اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ آدم بن گئے۔ چنانچہ وہ بھی چنیدہ  (selected)  تھے۔ اِصطفاء کے ایک عام معنی بھی ہوتے ہیں‘ یعنی پسند کر لینا۔ ان معنوں میں آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اور نوح کو اور ابراہیم کے خاندان کو اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر ترجیح دے کر پسند کر لیا ۔ تاریخ بنی اسرائیل میں «عمران » دو عظیم شخصیتوں کے نام ہیں۔ حضرت موسیٰ کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم کے والد یعنی حضرت عیسیٰ  کے نانا کا نام بھی عمران تھا۔ یہاں پر غالباً حضرت موسٰی کے والد مراد ہیں۔ لیکن آگے چونکہ حضرت مریم  اور عیسٰی کا تذکرہ آرہا ہے‘ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں پر حضرت مریم کے والد کی طرف اشارہ ہو۔

UP
X
<>