May 19, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 32

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ

کہہ دو کہ اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر بھی اگرمنہ موڑو گے تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا

 آیت  32:    قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ: «کہہ دیجیے اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی۔»

             فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ:  «پھر اگر وہ پیٹھ موڑ لیں تو (یاد رکھیں کہ)  اللہ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔»

            یہ دو آیتیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں رسو ل اللہ  کے لیے دو الفاظ آئے ہیں «اطاعت» اور «اتباع»۔ اطاعت اگر نہیں ہے تو یہ کفر ہے۔ چنانچہ اطاعت تو لازم ہے اور وہ بھی دلی آمادگی سے‘ مارے باندھے کی اطاعت نہیں۔ لیکن اطاعت کس چیز میں ہوتی ہے؟ جو حکم دیا گیا ہے کہ یہ کرو وہ آپ کو کرنا ہے۔ اتباع اس سے بلند تر شے ہے۔ انسان خود تلاش کرے کہ آنحضور  کے اعمال کیا تھے اور ان پر عمل پیرا ہو جائے‘ خواہ آپ  نے ان کا حکم نہ دیا ہو۔ گویا اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع تر ہے۔ انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اُس سے ہر طرح سے ایک مناسبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے لباس جیسا لباس پہننا پسند کرتا ہے‘ جو چیزیں اس کو کھانے میں پسند ہیں وہی چیزیں خود بھی کھانا پسند کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا حکم نہیں دیا گیا لیکن ان کا التزام پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی کا واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ آپ  کے کرتے کے بٹن نہیں لگے ہوئے تھے اور آپ کا گریبان کھلا تھا۔ اس کے بعد ان صحابی نے پھر ساری عمر اپنے ُکرتے کے بٹن نہیں لگائے۔ حالانکہ حضور  نے تو انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔یہ صحابی کہیں دور دراز سے آئے ہوں گے اور ایک ہی مرتبہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے ہوں گے‘ لیکن انہوں نے اُس وقت محمدٌ رسول اللہ  کو جس شان میں دیکھا اس کو پھر اپنے اوپر لازم کر لیا۔

             اتباع کے ضمن میں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اگرچہ دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں کہ انہیں جس درجے میں محمدٌ رسول اللہ  نے پورا فرمایا اس درجے میں پورا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے‘ پھر بھی اس کی کوشش کرتے رہنا اتباع کا تقاضا ہے۔ مثلاً رسول اللہ  نے کوئی مکان نہیں بنایا‘ کوئی جائیداد نہیں بنائی‘ جیسے ہی وحی کا آغاز ہوا‘ اس کے بعد آپ نے کوئی دُنیوی کام نہیں کیا‘ کوئی تجارت نہیں کی۔ آپ  نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اور اپنی توانائی کی ایک ایک رمق اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں لگا دی۔ سب کے لیے تو اس مقام تک پہنچنا یقینامشکل ہے‘ لیکن بہرحال بندئہ مؤمن کا آئیڈیل یہ رہے اور وہ اسی کی طرف چلنے کی کوشش کرتا رہے‘ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور زیادہ سے زیادہ وسائل فارغ کرے اور اس کام کے اندر لگائے تو «اتباع» کا کم سے کم تقاضا پورا ہو گا۔ البتہ جہاں تک «اطاعت» کا تعلق ہے اس میں کوتاہی قابل قبول نہیں۔ جہاں حکم دے دیا گیا کہ یہ حلال ہے‘ یہ حرام ہے‘ یہ فر ض‘ ہے یہ واجب ہے‘ وہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔ اگر اطاعت ہی سے انکار ہے تو اسے قرآن کفر قرار دے رہا ہے۔

            اتباع کا معاملہ یہ ہے کہ نبی  کا اتباع کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ اے نبی ! اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو‘ میری پیروی کرو۔ دیکھو‘ میرے شب و روز کیا ہیں؟ میری توانائیاں کن کاموں پر لگ رہی ہیں؟ دنیا کے اندر میری دلچسپیاں کیا ہیں؟ ان معاملات میں تم میری پیروی کرو۔ اس کے نتیجے میں تم اللہ تعالیٰ کے «محب» سے بڑھ کر «محبوب» بن جاؤ گے اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ وہ یقینا غفوراور رحیم ہے۔ باقی اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول کی بہرصورت کرنی ہے۔ اگر یہ اس اطاعت سے بھی منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اطاعت رسول  کا انکار تو کفر ہو گیا۔یہاں سورئہ آل عمران کے نصف ِاوّل کا ثلث اوّل مکمل ہو گیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس سورئہ مبارکہ کی پہلی ۳۲ آیات تمہیدی اور عمومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں دین کے بڑے گہرے اصول بیان ہوئے ہیں‘ نہایت جامع دعائیں تلقین کی گئی ہیں اور محکمات اور متشابہات کا فرق واضح کیا گیا ہے۔

UP
X
<>