May 19, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 77

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُإِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

اور اﷲ نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اُس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو، اور دنیا میں سے بھی اپنے حصے کو نظر انداز نہ کرو، اور جس طرح اﷲ نے تم پر اِحسان کیا ہے، تم بھی (دوسروں پر) اِحسان کرو، اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو۔ یقین جانو اﷲ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

      اس کے بعد دوسری نصیحت نوٹ کریں :

آیت ۷۷   وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ: ’’اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دارِ آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘

      یہ دولت اللہ ہی کی دی ہوئی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اس کے راستے میں خرچ کر کے اپنے لیے توشۂ آخرت جمع کرنے کی کوشش کرو۔ اس ضمن میں سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۱ کے یہ الفاظ بھی مد ِنظر رہیں : (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ) ’’یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی، اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘

      وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا: ’’اور مت بھولو تم دنیا سے اپنا حصہ‘‘

      کسی دولت مند شخص کے لیے یہ تیسری نصیحت ہے کہ جو دولت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اس میں سے اپنی ذات پر بھی خرچ کرو۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے قارون بہت کنجوس تھا۔ اسے بس دولت جمع کرنے ہی کی فکر تھی، دولت کو خرچ کرنے سے وہ گھبراتا تھا، حتیٰ کہ اپنی ذاتی ضروریات کو بھی نظر انداز کر دیتا تھا۔ اس سلسلے میں سورۃ الاعراف آیت ۳۲ کے ان الفاظ میں بہت واضح راہنمائی موجود ہے: (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ) ’’ (اے نبی!ان سے ) کہیں کہ کس نے حرام کی ہے وہ زینت جو اللہ نے نکالی ہے اپنے بندوں کے لیے؟ اور (کس نے حرام کی ہیں ) پاکیزہ چیزیں کھانے کی؟‘‘ یعنی ایک خوشحال آدمی کو اچھا کھانے اور اچھا پہننے سے کس نے منع کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رہبانیت اختیار کرنے کا حکم تو نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اعتدال کی روش کو پسند فرماتے ہیں ۔ چنانچہ سورۃ الفرقان کی آیت: ۶۷ میں ’’عباد الرحمن‘‘ کے اوصاف میں سے ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے: (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا) ’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حکم کے ذریعے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر اپنے وسائل میں سے اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں چوتھی نصیحت یہ دی گئی ہے :

      وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ: ’’اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو، جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے‘‘

      اللہ نے تمہیں دولت دی ہے تو یہ اللہ کا تم پر بہت بڑا احسان ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور اپنے بیگانے کی تفریق و تخصیص کیے بغیر غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کو اپنا شعار بناؤ۔ اس سلسلے میں سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے: (وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ  لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ) ’’اور وہ لوگ جن کے اموال میں ایک مقررہ حصہ ہے، سائلوں اور ناداروں کا‘‘۔ اوراب پانچویں نصیحت:

      وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ: ’’اور زمین میں فساد مت مچاؤ، یقینا اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

      اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے یہ بہت اہم ہدایت ہے۔ وہ کون سا فساد تھا جس میں قارون ملوث تھا؟ یہ سمجھنے کے لیے مصر کے اس ماحول کا تصور کریں جہاں حضرت موسیٰ دن رات ہمہ تن کارِ نبوت اور فرائض ِرسالت کی ادائیگی میں لگے ہوئے تھے۔ اُس معاشرے کے کچھ لوگ تو آپ کا ساتھ دے رہے تھے اور اس کام میں آپ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش میں تھے، جبکہ کچھ دوسرے لوگ آپ کی راہ میں روڑے اٹکانے اور آپ کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس معاشرے کے لیے حضرت موسیٰ کے ذریعے سے جو خیر پیدا کرنا چاہتا تھا، قارون اور اس کے گروہ کے لوگ مختلف حربوں سے اس خیر کا راستہ روکنے کی کوشش میں مصروف تھے، اور یہی وہ ’’فساد فی الارض‘‘ ہے جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔

      اس حوالے سے اگر ہم رسول اللہ کے مدنی دور کا جائزہ لیں تو مدینہ کے منافقین بھی آپؐ کے مشن کے خلاف اسی طرح کی منفی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل تھے۔ ان کی مفسدانہ سازشوں کا ذکر سورۃ البقرۃ میں اس طرح کیا گیا ہے: (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ   اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ) ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار! بلاشبہ وہی ہیں فساد کرنے والے، لیکن وہ شعور نہیں رکھتے‘‘۔ چنانچہ کسی دینی جماعت یا تحریک کی اصلاحی اور انقلابی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ایسی جماعت کے نظم کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں کرنا گویا ’’فساد فی الارض‘‘ کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ کو ایسے مفسد لوگ پسند نہیں ہیں ۔ یعنی دین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوشش کا حصہ بنو، نہ کہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔ مندرجہ بالا ہدایات کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر سے دہرایا جائے:

      لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ:

      ’’ (اپنی دولت پر) اتراؤ مت، یقینا اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

 (۲)       وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ:

      ’’اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دارِ آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘

 (۳)       وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا :

      ’’اور تم دنیا سے اپنا حصہ مت بھولو‘‘

 (۴)       وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ:

      ’’اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو، جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے‘‘

 (۵)       وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ:

      ’’اورزمین میں فساد مت مچاؤ، یقینا اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

UP
X
<>