May 19, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 76

إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ

قارون موسیٰ کی قوم کاا یک شخص تھا، پھر اُس نے اُنہی پر زیادتی کی۔ اور ہم نے اُسے اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُس کی چابیاں طاقت ور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اُٹھتی تھیں ۔ ایک وقت تھا جب اُس کی قوم نے اُس سے کہا کہ : ’’ اِتراؤ نہیں ، اﷲ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا

آیت ۷۶   اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی: ’’یقینا قارون موسیٰ کی قوم ہی سے تھا‘‘

      تورات میں اس شخص کا نام  Qaurah لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے تلفظ کے اختلاف کی وجہ سے یہ فرق پیدا ہوا ہو۔ بہر حال اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ یہاں قارون نامی شخص کے حوالے سے جس کردار اور رویے ّکا ذکر کیا گیاہے وہ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو کسی محکوم قوم کے اندر حکمرانوں کے ہاتھوں جنم لیتا ہے اور ان کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔ دراصل کسی بھی ملک میں فاتح اور غاصب حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی ظلم و ناانصافی سے عبارت ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں عزت و شرافت کے نئے معیار جنم لیتے ہیں ۔ سورۃ النمل کی آیت ۳۴ میں ملکہ سبا کی زبانی غاصب بادشاہوں کے کردار پر اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے: (اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً) ’’بلاشبہ جب بادشاہ کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں ، اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں ۔‘‘

      غاصب حکمران ہمیشہ خوف اور لالچ کے ذریعے عوام کے اندر سے اپنے حمایتی پیدا کرتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں محکوم قوم کے گھٹیا اور بے غیرت قسم کے لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقاؤں سے مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے سورۃ النمل کی مذکورہ آیت کے ضمن میں برصغیر پاک و ہند کے غیر ملکی حکمرانوں کی مثال دی جا چکی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی لوگوں میں سے ایک ایسا ہی طبقہ پیدا کیا تھا۔ ان لوگوں کو جاگیریں دی گئیں ، بڑے بڑے ٹھیکے الاٹ کیے گئے، خطابات سے نوازا گیا، اعلیٰ مناصب پر بٹھایا گیا اور یوں ان کی غیرتوں اور وفاداریوں کو خرید کر ان کو خود ان ہی کی قوم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح فرعون کی عملداری میں بنی اسرائیل کے اندر بھی ایک ایسا ضمیر فروش طبقہ پیدا ہوچکا تھا اور قارون اسی طبقے کا ایک ’’معزز فرد‘‘ تھا۔ یہ شخص نہ صرف بنی اسرائیل میں سے تھا بلکہ حضرت موسیٰ کا حقیقی چچا زاد تھا۔ فرعون کے دربار میں اس کو خاص امتیازی مقام حاصل تھا۔ اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اس نے اس قدر دولت اکٹھی کر رکھی تھی کہ اس اعتبار سے اس کا نام ضرب المثل کا درجہ رکھتا تھا، جیسے آج ہمارے ہاں کے بعض سیاسی کردار بھی دولت سمیٹنے میں علامتی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔

      فَبَغٰی عَلَیْہِمْ: ’’لیکن اُس نے ان کے خلاف سر کشی کی‘‘

      اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے خلاف ظلم و زیادتی پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔

      وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓ ءُا بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ: ’’اور اُس کو ہم نے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیاں ایک طاقتور جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔‘‘

      اس سے اگر آج کل کی چابیوں کا تصور ذہن میں رکھیں تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ پرانے زمانے میں آج کل کی طرز کے تالے تو نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا پھاٹک نما دروازوں کو بند کر نے کے لیے بڑی بڑی لکڑیوں یا دھات کے ’’اڑنگوں‘‘ کو مخصوص طریقے سے ان کے اندر پھنسانے کا انتظام کیا جاتا ہو گا اوران ہی کو ان دروازوں کی چابیاں کہا جاتا ہو گا۔ بہر حال اس جملے کا عمومی مفہوم یہی ہے کہ اس شخص کے پاس بے انتہا دولت تھی۔

      اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ : ’’جب اس سے کہا اس کی قوم کے لوگوں نے کہ اِتراؤ مت‘‘

      ظاہر ہے ہر معاشرے میں کچھ بھلے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ جیسے ہم سورۃ الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کا واقعہ پڑھ آئے ہیں ۔ ان میں سے ایک شخص درویش صفت اور عارف باللہ تھا جبکہ دوسرا مال مست تھا جو اپنی دولت کے گھمنڈ میں اللہ کو بھی بھلا بیٹھا تھا۔ بہر حال کچھ بھلے لوگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ تم اپنی دولت پر اترایا نہ کرو۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ ان آیات میں دولت مند لوگوں کے لیے پانچ انتہائی مفید نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ۔ جن لوگوں کے پاس بہت سی دولت جمع ہو گئی ہو انہیں ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ اپنی دولت پر اتراؤ نہیں ۔

      اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ : ’’یقینا اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

UP
X
<>