May 19, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 46

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

اور نہ تم اُس وقت طور کے کنارے موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) پکارا تھا، بلکہ یہ تمہارے رَبّ کی رحمت ہے (کہ تمہیں وحی کے ذریعے یہ باتیں بتائی جارہی ہیں ) تاکہ تم اُس قوم کو خبردار کرو جس کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ نصیحت قبول کرلیں

آیت ۴۶   وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا: ’’اور نہ آپؐ (اُس وقت) طور کے پاس موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) پکارا تھا‘‘

      وَلٰـکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ: ’’بلکہ یہ سب رحمت ہے آپؐ کے رب کی طرف سے تا کہ آپؐ اس قوم کو خبردار کریں جس کی طرف آپؐ سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا‘‘

      قریش مکہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے اور حضرت اسماعیل سے لے کرمحمد ٌرسول اللہ کی بعثت تک کم و بیش تین ہزار برس کا عرصہ بیت چکا تھا، جس میں اس قوم کی طرف نہ کوئی نبی اور رسول آیا اور نہ ہی کوئی کتاب بھیجی گئی۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق کی نسل (بنی اسرائیل) میں نبوت کا سلسلہ لگاتار چلتا رہا اور انہیں زبور، تورات اور متعدد صحائف بھی عطا کیے گئے۔ بلکہ بنی اسرائیل میں چودہ سو برس کا ایک عرصہ ایسا بھی گزرا جس کے دوران ان میں ایک لمحے کے لیے بھی نبوت کا وقفہ نہیں آیا۔ بہرحال ایک طویل عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل کو خبردار کرنے کے لیے ان کی طرف حضرت محمد کو بطور رسول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

      لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ: ’’شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘

UP
X
<>