May 19, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 21

وَقَالَ الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقَاءنَا لَوْلا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلائِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيرًا

جن لوگوں کو یہ توقع ہی نہیں ہے کہ وہ (کسی وقت) ہم سے آملیں گے، وہ یوں کہتے ہیں کہ : ’’ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اُتارے جاتے؟ یا پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیں؟‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں ، اور اُنہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے

آیت ۲۱   وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ: ’’اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ہماری ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں کہ کیوں نہیں اتارے جاتے ہم پر فرشتے؟‘‘

      اَوْ نَرٰی رَبَّنَا: ’’یا ہم خود اپنے ربّ کو دیکھیں! ‘‘

      اللہ کے حضور حاضری پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی طبیعتوں میں سر کشی اور لا پرواہی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ ایمان کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے جواب میں وہ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ـ۔ مثلاً یہ کہ اگر اللہ نے ہمیں کوئی پیغام بھیجنا ہی تھا تو اپنے فرشتوں کے ذریعے بھجواتا یا وہ خود ہمارے سامنے آ جاتا اور ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے۔ یا یہ کہ اللہ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا معجزہ دکھایا جاتا جس سے ہم پر واضح ہو جاتا کہ محمد واقعی اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ان کے ایسے مطالبات کا ذکر مکی سورتوں میں بار بار کیا گیا ہے۔

      لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا: ’’ انہوں نے اپنے آپ میں بہت زیادہ تکبر کیا ہے اور وہ بہت بڑی سر کشی کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘

      ان کے یہ مطالبات ان کے استکبار کا ثبوت اور ان کی سر کشی کی دلیل ہیں۔ گویا وہ خود کو اس لائق سمجھتے ہیں کہ ان پر فرشتوں کا نزول ہو اور اللہ خود اُن کے روبرو ان سے ہم کلام ہو۔

UP
X
<>