May 18, 2024

قرآن کریم > المؤمنون >surah 23 ayat 47

فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ 

چنانچہ کہنے لگے : ’’ کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ، حالانکہ اُن کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے؟‘‘

 آیت ۴۷: فَقَالُوْٓا اَنُؤمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ: «انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لائیں جبکہ ان کی قوم ہماری محکوم ہے!»

            فرعون اور اُس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر ایک اعتراض تو وہی کیا جو حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح کی قومیں اپنے رسولوں کے بارے میں کر چکی تھیں۔ یعنی یہ کہ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کا تعلق فرعون کی محکوم قوم سے تھا۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کے غلام تھے اور وہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کے دو اشخاص اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے دو بدو بات کریں۔

            سیاق و سباق کے حوالے سے یہاں پر لفظ «عبادت» کے اصل مفہوم کو بھی سمجھ لیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کا جو مفہوم آج ہمارے ذہنوں میں ہے بنی اسرائیل اس مفہوم میں فرعون یا اس کی قوم کی عبادت نہیں کرتے تھے، یعنی وہ ان کی پرستش یا پوجا نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے اور یہاں فرعون نے اسی اطاعت کو لفظ «عبادت» سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ فرعون کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوم ہماری غلام ہے، ہماری اطاعت شعار ہے، ہم ان پر مطلق اختیار رکھتے ہیں، ہم جو چاہیں انہیں حکم دیں اور جیسا قانون ہم چاہیں ان پر لاگو کریں۔ ہم چاہیں تو ان کے لڑکوں کو قتل کرواتے رہیں اور چاہیں تو ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا کریں۔ یہ لوگ ہمارے غلام اور محکوم ہونے کے باعث ہمارے کسی حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کر سکتے۔ 

UP
X
<>