May 14, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 20 ayat 40

الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اﷲ ہے۔ اور اگر اﷲ لوگوں کے ایک گروہ (کے شر) کو دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اﷲ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، سب مسمار کر دی جاتیں ۔ اور اﷲ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس (کے دین) کی مدد کریں گے۔ بلاشبہ اﷲ بڑی قوت والا، بڑے اقتدار والا ہے

 آیت ۴۰:  الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ:   «وہ لوگ جو نا حق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے»

            یعنی مہاجرین جنہیں اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ کر مکہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

            اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ:   «صرف اس (جرم) پر کہ انہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے!»

            ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ اہل مکہ کے باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو اپنا رب اور معبود مانتے تھے، جس کی پاداش میں انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

            وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ:   «اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے دُور نہ کرتا رہتا»

            یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کی آیت: ۲۵۱ میں بھی آ چکا ہے۔ وہاں پر مشرک بادشاہ جالوت کے ساتھ حضرت طالوت کی جنگ کا ذکر کرنے کے بعد یہ اصول بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً زمین کی صفائی کرتا رہتا ہے۔ فاسد لوگ ہوں یا فاسد تہذیب و ثقافت، جب ان کا فساد زمین میں ایک حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے اسے کسی دوسری طاقت کے ذریعے نیست و نابود کر دیتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ ایسے نہ کرتا تو:  لَـفَسَدَتِ الْاَرْضُ:   زمین میں ہر طرف فساد ہی فساد ہوتا۔ البتہ یہاں اس بگاڑ یا فساد کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:   

            لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا:   «تو ڈھا دیے جاتے ساری خانقاہیں، گرجے، کنیسے اور مسجدیں، جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔»

            صَلَوٰتٌ، صلوٰۃ کی جمع ہے۔ صَلَوتَا عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس سے مراد یہودیوں کے عبادت خانے (Cinygogs) ہیں۔ دراصل عبرانی اور عربی زبانوں میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یا تو ان کا آپس میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے یا پھر دونوں سگی بہنیں ہیں۔ یعنی یا تو عربی زبان عبرانی سے نکلی ہے اور یا یہ دونوں کسی ایک زبان کی شاخیں ہیں۔ چنانچہ ان دونوں میں بہت سے الفاظ باہم مشابہ ہیں۔ مثلا عربی کے لفظ «سلام» کی جگہ عبرانی میں «شولوم» بولا جاتا ہے۔ اسی طرح عبرانی کے«یوم کپور» کو عربی میں «یومِ کفارہ» کہا جاتا ہے۔ یعنی لفظ «یوم» تو جوں کا توں ویسے ہی ہے جبکہ «کپور» اور «کفارہ» میں بنیادی فرق «پ» اور «ف» کا ہے۔عربی میں چونکہ «پ» نہیں ہے اس لیے اکثر زبانوں کی «پ» کی آواز عربی میں آکر «ف» سے بدل جاتی ہے۔ جیسے اس سے پہلے سورۃ الانبیاء کی آیت: ۸۵ کے تحت «ذو الکفل» ِکے حوالے سے ہندی کے لفظ «کپل» کا عربی کے «کِفل» کی صورت اختیار کرنے کا ذکر ہوا تھا۔ بہر حال عبرانی اور عربی زبانوں کے الفاظ اور ان کی اصطلاحات میں اکثر مشابہت پائی جاتی ہے۔

            تو اگر اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق کچھ لوگوں کو کچھ لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا، یعنی مفسد قوتوں کو نیست و نابود نہ کرتا رہتا تو دنیا میں تمام مذاہب کی جتنی بھی عبادت گاہیں ہیں وہ سب کی سب منہدم کر دی جاتیں۔ ظاہر ہے یہ تمام عبادت گاہیں اپنے اپنے وقت میں ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی تھیں۔

            وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ:   «اور اللہ لازماً اُس کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کرے گا۔»

            ان الفاظ میں اہل ایمان کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔ لہٰذا آیت کا یہ ٹکڑا ہر مسلمان کو اَزبر ہونا چاہیے۔ اس عبارت میں تاکید کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں انتہائی تاکید کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ فعل مضارع سے پہلے لام مفتوح (زبر کے ساتھ) بھی حرفِ تاکید ہے، جبکہ آخر میں نون مشدد سے معنی میں مزید تاکید پیدا ہوتی ہے۔ جیسے اَفْعَلُ کے معنی ہیں کہ میں یہ کروں گا، لیکن لَاَفْعَلَنََّّ کے معنی ہوں گے کہ میں یہ لازماً کر کے رہوں گا۔

            لیکن اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ وعدہ مشروط ہے۔ تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا! جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۵۲ میں فرمایا گیا ہے:  فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ:   کہ تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ تم لوگ اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاؤ، تمہاری وفاداریاں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہوں اور پھر بھی تم چاہو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ اس سلسلے میں اسی سورت کی آیت: ۱۵ کا مضمون بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے، جس میں اللہ کی مدد پر بندۂ مؤمن کے پختہ یقین کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ دراصل یہ بندۂ مؤمن کا «یقین» ہی ہے جو اس کے صبر و استقامت اور ثبات و استقلال کے لیے سہارا فراہم کرتا ہے۔ اور اگر دل میں یقین کی جگہ بے یقینی ڈیرے جما لے اور اس بے یقینی کے ہاتھوں نصرتِ الٰہی کی اُمید کی رسی ہی کٹ جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے دنیا میں اور کوئی سہارا نہیں رہتا۔

            اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ:   «یقینا اللہ طاقتور ہے، زبردست ہے۔»

            یعنی اللہ نے تمہاری مدد کا وعدہ کیا ہے تو جان لو کہ وہ زبردست طاقت کا مالک اور ہر وقت، ہر جگہ تمہاری مدد پرپوری طرح قادر ہے۔

UP
X
<>