May 14, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 31

حُنَفَاء لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ 

کہ تم یکسوئی کے ساتھ اﷲ کی طرف رُخ کئے ہوئے ہو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانتے ہو۔ اور جو شخص اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر یا تو پرندے اُسے اُچک لے جائیں ، یا ہوا اُسے کہیں دور دراز کی جگہ لا پھینکے 

 آیت ۳۱:  حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہِ:   «یکسُو ہو جاؤ اللہ کے لیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔»

            اللہ کی بندگی میں کسی اعتبار اور کسی پہلو سے شرک کا شائبہ تک نہ آنے پائے۔ نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ حقوق میں، نہ اختیارات میں۔

            وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ:   «اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گر پڑا»

            شرک کرنے والے انسان کی مثال ایسے ہے جیسے وہ کسی بلند ی پر رسّی کی مدد سے لٹکا ہوا تھا تو اس کی رسّی کٹ گئی اور وہ یکدم تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔

            فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ:   «تو اسے پرندے اُچک لیں یا ہوا اُڑا پھینکے کسی دور دراز جگہ پر۔»

            تو ایسے شخص کی اب کیفیت یہ ہے یا تو وہ باز اور عقاب جیسے شکاری پرندوں کے رحم و کرم پر ہو گا یا پھر تیز ہوا کا کوئی جھونکا اسے کسی کھائی میں پٹخ دے گا۔ مشرک کا ایسا انجام اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ کا دامن چھوڑ کر وہ بے سہارا ہو جاتا ہے، جبکہ توحید پرست شخص ایک مضبوط سہارے پر قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ ابراہیم کی آیت: ۲۷ میں فرمایا گیا ہے:  یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ:   «ثابت قدم رکھتا ہے اللہ اہل ِایمان کو قول ِثابت (کلمہ ٔتوحید) کے ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔»

UP
X
<>