May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 37

خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۭ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ

انسان جلد بازی کی خصلت لے کر پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دِکھلا دوں گا، لہٰذا تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ

 آیت ۳۷:  خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ:   «انسان بنایا گیا ہے عجلت سے۔»

            یعنی انسان کی خلقت میں عجلت پسندی رکھی گئی ہے۔ عجلت پسندی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کی ذات یا شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ مادی، جسمانی یا حیوانی ہے جس کی تخلیق زمین یعنی مٹی سے ہوئی ہے۔ اس مادی وجود میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں رکھی گئی ہیں۔ سورۃ النساء کے یہ الفاظ اس حقیقت پر شاہد ہیں :   وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا:   کہ بنیادی طور پر انسان کمزور اور ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی ذات کا دوسرا پہلو روحانی ہے۔ انسانی روح چونکہ نور سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کا یہ پہلو بہت بلند اور ارفع ہے۔ اسی پہلو کے بارے میں سورۃ التین میں فرمایا گیا ہے:  لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ:   «ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیاہے»۔ گویا اصل انسان تو وہ روح ہی ہے جو انسانی تخلیق کے مرحلہ اوّل (وضاحت کے لیے الانعام: ۹۴ کی تشریح ملاحظہ ہو) میں اَحْسَنِ تَقْوِیْم کی کیفیت میں پیدا کی گئی۔ اس «نور» کو پھر اس انسانی جسم کے اندر رکھا گیا جو مٹی سے بنا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس میں بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ فطری اور جبلی طورپر عجلت پسند ہے۔

            سَاُورِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ:   «جلد ہی میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دوں گا، پس تم لوگ مجھ سے جلدی نہ مچاؤ۔»

            کیا عجب کہ تمہارے عذاب کے بارے میں وعیدوں کے پورا ہونے کا وقت قریب ہی آ لگا ہو۔

UP
X
<>