May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 32

وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ 

اور ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنادیا ہے، اور یہ لوگ ہیں کہ اُس کی نشانیوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں

 آیت ۳۲:  وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّہُمْ عَنْ اٰیٰتِہَا مُعْرِضُوْنَ:   «اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، لیکن یہ لوگ اس (آسمان) کی نشانیوں کو دھیان میں نہیں لاتے۔»

            اس سے پہلے یہ مضمون سورۃ الحجر میں اس طرح بیان ہوا ہے:  وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ:   «اور ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اسے مزین کر دیا ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہم نے حفاظت کی ہے اس کی ہر شیطان مردود سے»۔ یعنی آسمانِ دنیا پر جو ستارے ہیں وہ باعث زینت بھی ہیں، لیکن دوسری طرف یہ شیاطین جن کے لیے میزائل سنٹر بھی ہیں۔ ان میں سے جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے اس پر شہابِ ثاقب کی شکل میں میزائل داغا جاتا ہے اور یوں ان شیاطین کی پہنچ کے حوالے سے آسمان کو سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

            اب تک کی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کے دو پہلو اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو O-Zone Layer کی فراہم کردہ حفاظتی چھتری ہے جس نے پورے کرۂ ارض کو ڈھانپ رکھا ہے اور یوں سورج سے نکلنے والی تمام مضر شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکنے کے لیے یہ فلٹر کا کام کرتی ہے (ماحولیاتی سائنس کے ماہرین آج کل اس کے بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ مختلف انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے)۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری فضا (زمین کے اوپر کره ہوائی) بھی حفاظتی چھت کا کام دیتی ہے۔ خلا میں تیرنے والے چھوٹی بڑی جسامتوں کے بے شمار پتھر (یہ پتھر یا پتھر نما ٹھوس اجسام مختلف ستاروں یا سیاروں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ہر وقت خلا میں بکھرے رہتے ہیں.) جب کره ہوائی میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی تیز رفتاری کے سبب ہوا کی رگڑ سے جل کر فضا میں ہی تحلیل ہو جاتے ہیں اور یوں زمین ان کے نقصانات سے محفوظ رہتی ہے۔

UP
X
<>