May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 30

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، کیا اُنہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ سارے آسمان اور زمین بندتھے، پھر ہم نے اُنہیں کھول دیا، اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے؟ کیا پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے؟

 آیت ۳۰:  اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا:   «کیا دیکھا نہیں ان کافروں نے کہ آسمان اور زمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا!»

            یعنی شدید گرمی اور حبس کی صورتِ حال جس میں لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہوتی ہے، اس کیفیت میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازے بھی بند ہیں، زمین کے سوتے بھی خشک ہیں، بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، ہر طرف خشک سالی کا راج ہے اور پھر یکا یک اللہ کی رحمت سے یہ صورتِ حال تبدیل ہو جاتی ہے۔ آسمان کے دہانے کھل جاتے ہیں اور بارش کے پانی سے زمین پر نباتاتی اور حیواناتی زندگی کی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔

            اس کے علاوہ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ Big Bang کے بعد مادے کا جو ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا تو وہ ایک یک جا وجود (Homogenous mass) کی صورت میں تھا۔ پھر مادے کے اس گولے میں تقسیم ہوئی، مختلف ستاروں اور سیاروں کے گچھے بنے، کہکشائیں (Galaxies) وجود میں آئیں، سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق ہوئی، اور یوں ہماری زمین بھی پیدا ہوئی۔ گویا اس سارے تخلیقی عمل کا اظہار اس ایک فقرے میں ہو گیا کہ آسمان اور زمین بند تھے، یعنی باہم ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا، جدا کر دیا۔

            وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ:   «اور ہم نے پانی سے ہر جاندار شے کو بنایا!»

            یہاں پر خَلَقْنَا کے بجائے جَعَلْنَا فرمایا۔ زمین کے اوپر زندگی جس کسی شکل میں بھی ہے، چاہے وہ نباتاتی حیات ہو یا حیوانی، ہر جاندار چیز کا مادۂ تخلیق مٹی اور مبدأ حیات پانی ہے۔ مٹی (تُراب) اور پانی مل کر گارا (طِین) بنا۔ پھر یہ طینٍ لَّازب میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے حمأٍ مسنون کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد صلصالٍ مّنْ حَمَأٍ مسنون کا مرحلہ آیا۔ پھر صلصالٍ کالفخّار بنا۔ (اس سلسلے میں سورۃ الحجر،  آیت: ۲۶ کی تشریح بھی مد نظر رہے)۔ گویا مٹی سے ہر جاندار چیز کی تخلیق ہوئی اور ان سب کی زندگی کا دارومدار پانی پر رکھا گیا۔ چنانچہ ہر جاندار کے لیے مبدأ حیات پانی ہے۔

            اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ:   «تو کیا (یہ سب کچھ جان لینے کے بعد بھی) یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے؟»

UP
X
<>