May 4, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 9

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ 

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اُتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

 آیت ۹:  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ: «یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔»

            یہ آیت مبارکہ بہت اہم ہے۔ جہاں تک اس کے پہلے حصے کا تعلق ہے تو یہ حکم تورات پر بھی صادق آتا ہے اور انجیل پر بھی۔ یعنی یہ دونوں کتابیں بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں۔ قرآن میں اس کی بار بار تصدیق بھی کی گئی ہے۔ سورۃ المائدۃ کی آیت: ۴۴ میں تورات کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق اس طرح کی گئی ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ۔ سوره آل ِعمران کی  آیت: ۳ میں ان دونوں کتابوں کا ذکر فرمایا گیا: وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ۔ لیکن اس آیت کے دوسرے حصے میں جو حکم آیا ہے وہ صرف اور صرف قرآن کی شان ہے۔ اس سے پہلے کسی الہامی کتاب یا صحیفۂ آسمانی کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سابقہ کتب کی ہدایات و تعلیمات حتمی اور ابدی نہیں تھیں۔ وہ تو گویا عبوری ادوار کے لیے وقتی اور عارضی ہدایات تھیں اور اس لحاظ سے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اب جبکہ ہدایت کامل ہو گئی تو اسے تا ابد محفوظ کر دیا گیا۔

            یہ  آیت ختم نبوت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے۔ اگر سورۃ المائدۃ کی  آیت: ۳ کے مطابق قرآن میں ہدایت درجہ کاملیت تک پہنچ گئی اور آیت زیر نظر کے مطابق وہ ابدی طور پر محفوظ بھی ہو گئی تو وحی کے جاری رہنے کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔ چنانچہ قادیانیوں کے پاس اِن دونوں قرآنی حقائق کو تسلیم کر لینے کے بعد (اور ان کے لیے انہیں تسلیم کیے بغیر چارا بھی نہیں) وحی کے جاری رہنے کے جواز کی کوئی عقلی و منطقی دلیل باقی نہیں رہ جاتی۔ وحی کی ضرورت ان دونوں میں سے کسی ایک صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ یا تو ابھی ہدایت کامل نہیں ہوئی تھی اوراس کی تکمیل کے لیے وحی کے تسلسل کی ضرورت تھی۔ یا پھر ہدایت کامل تو ہو گئی تھی مگر بعد میں غیر محفوظ ہو گئی یا گم ہو گئی اور اس وجہ سے پیدا ہو جانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے وحی کی ضرورت تھی۔ بہرحال اگر ان دونوں میں سے کوئی صورت بھی درپیش نہیں ہے تو سلسلۂ وحی کے جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) عبث کام نہیں کرتا کہ ضرورت کے بغیر ہی سلسلۂ وحی کو جاری کیے رکھے۔

            یہاں دو دفعہ (زیر نظر آیت سے قبل  آیت: ۶ میں بھی) قرآن حکیم کے لیے «الذکر» کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سوره «ن» کی آخری دو آیات میں بھی قرآن حکیم کے لیے یہ لفظ آیا ہے۔ ذکر کا مفہوم یاد دہانی ہے۔ قرآنی فلسفے کے مطابق قرآن مجید کا «الذکر» ہونا اس مفہوم میں ہے کہ ایمانی حقائق خصوصی طور پر اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا علم انسانی روح کے اندر موجود ہے، مگر اس علم پر ذُہول (بھول اور غفلت) کا پردہ طاری ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک وقت میں انسان کو ایک چیز یاد ہوتی ہے مگر بعد میں یاد نہیں رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کے بارے میں معلومات اس کی یادداشت کے تہ خانے میں دب جاتی ہیں۔ پھر بعد میں کسی وقت جونہی کوئی چیز ان معلومات سے متعلق سامنے آتی ہے تو انسان کے ذہن میں وہ بھولی بسری معلومات پھر سے تازہ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ذہن میں موجود معلومات کو پھر سے تازہ کرنے والی چیز گویا یاد دہانی (reminder) کا کام کرتی ہے۔ مثلاً ایک دوست سے آپ کی سالہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس کا خیال بھی کبھی نہیں آیا، مگر ایک دن اچانک اس کا دیا ہوا ایک قلم یا رومال سامنے آنے سے اس دوست کی یاد یکدم ذہن میں تازہ ہو گئی۔ اس قلم یا رومال کی حیثیت گویا ایک نشانی (یا آیت) کی ہے جس سے آپ کے ذہن میں ایک بھولی بسری یاد پھر سے تازہ ہو گئی۔

            اسی طرح اللہ کی ذات کا علم انسانی روح میں خفتہ (dormant) حالت میں موجود ہے۔ اس علم کو پھر سے جگا کر تازہ کرنے اور اس پر پڑے ہوئے ذہول اور نسیان کے پردوں کو ہٹانے کے لیے آیاتِ آفاقیہ، آیاتِ انفسیہ اور آیاتِ قرآنیہ گویا یاد دہانی کا کام دیتی ہیں اور اللہ کی یاد کو انسان کے ذہن میں تازہ کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کو «الذکر» (یاد دہانی) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

UP
X
<>