April 23, 2024

قرآن کریم > الحجر

الحجر

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

سُورۃُ الحِجْر

تمہیدی کلمات

            اسلوب کے اعتبار سے سورۃ الحجر اپنے گروپ کی باقی تینوں سورتوں سے بالکل منفرد ہے، بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی ذیلی گروپ میں سوره یوسف باقی دونوں سورتوں سے منفرد تھی۔ چنانچہ اس ذیلی گروپ کی پہلی دونوں سورتوں (الرعد اور ابراہیم) کا نہ صرف مزاج اور اسلوب ایک سا ہے بلکہ دونوں میں نسبت ِزوجیت بھی ہے، جبکہ سورۃ الحجر کا مزاج، انداز اور اسلوب ان دونوں سورتوں سے مختلف ہے۔

            اسلوب میں ایک بنیادی فرق تو آیات کی طوالت کے سلسلے میں ہے۔ دوسری دونوں سورتوں کی آیات کے مقابلے میں سورۃ الحجر کی آیات نسبتاً چھوٹی ہیں۔ سورۃ الرعد کے چھ رکوع ہیں اور اس کی آیات ۴۳ ہیں۔ گویا اوسطاً ایک رکوع میں سات آیات ہیں۔ اسی طرح سوره ابراہیم کے سات رکوع ہیں اور اس کی ۵۲ آیات ہیں۔ یعنی اس کے ایک رکوع میں بھی اوسطاً تقریباً سات آیات ہی ہیں۔ اب جب ہم اس حوالے سے سورۃ الحجر کو دیکھتے ہیں تو اس کے چھ رکوع میں ۹۹ آیات ہیں۔ یعنی ایک رکوع میں اوسطاً ۱۶ آیات ہیں۔ آیات کے چھوٹے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا اسلوب مکی دور کی ابتدائی سورتوں سے ملتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ الحجر ابتدائی چار سال میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ایک ہے۔

            سورتوں کے اسلوب کے بارے میں ایک بنیادی نکتہ بہت اہم ہے کہ بالکل ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں کی آیات چھوٹی اور رِدھم (rhythm) بہت تیز ہے۔ ان میں صوتی آہنگ اور غنائیت بھی بہت واضح ہے۔ جبکہ بعد میں نازل ہونے والی سورتوں کے مزاج اور اسلوب میں اس لحاظ سے ہمیں بتدریج تبدیلی نظر آتی ہے اور یہ تبدیلی مدنی دور میں جا کر اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جہاں آیات نسبتاً طویل ہیں اور ردھم بہت دھیما۔ چنانچہ مدنی دور میں آیت دَین، آیت الکرسی اور آیت البر جیسی غیر معمولی طوالت کی حامل آیات بھی ہیں جو ابتدائی دور کی بعض سورتوں سے بھی زیادہ طویل ہیں۔ سورتوں کے اس اسلوب کی مثال ایک ایسے دریا کی سی ہے جو پہاڑوں سے نکلتا ہے اور بتدریج سفر کرتے ہوئے میدانی علاقے میں پہنچتا ہے۔ پہاڑی علاقے میں اس کا بہاؤ بہت تیز اور پاٹ مختصر ہوتا ہے، لیکن میدانی علاقے میں آ کر اس کے بہاؤ میں ٹھہراؤ اور پاٹ میں وسعت آ جاتی ہے۔ جیسے دریائے سندھ، جو پہاڑی علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک ندی کا منظر پیش کرتا ہے، میدانی علاقوں میں دریا خان وغیرہ کے قریب اس کا پانی میلوں میں پھیلا نظر آتا ہے۔

            اس مثال کے مطابق ابتدائی دور کی سورتوں کا رِدھم تیز اورآیات محکم ہیں، اِن کے مضامین میں جامعیت اور گہرائی زیادہ ہے، جبکہ بعد میں نازل ہونے والی سورتوں میں یہ مضامین بتدریج پھیلتے گئے ہیں اور پھر اس نسبت سے عبارت کا رِدھم بھی مدہم ہوتا گیا ہے۔ اس تدریجی تبدیلی کے حوالے سے دیکھیں تو مکی دور کی آخری سورتوں میں بھی ہمیں وہ رِدھم نمایاں محسوس نہیں ہوتا جو ابتدائی زمانے کی سورتوں، مثلاً سوره قٓ، سورۃ النجم، سورۃالرحمٰن، سورۃ الواقعہ اور سورۃ الملک میں نظر آتا ہے۔

            اب رہا یہ سوال کہ ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورۃ الحجر کو مصحف کے وسط میں اور ایسی سورتوں کے درمیان میں کیوں رکھا گیا ہے جن کا زمانہ نزول بعد کا ہے، تو اس کا واضح اور حتمی جواب تو یہی ہے کہ اس معاملے کا تعلق توقیفی امور سے ہے اور اس کی اصل حکمت بھی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں میری ایک اپنی رائے ہے جس کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، اور وہ یہ کہ یہاں ایک جیسی مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو گیارہویں پارے سے شروع ہو کر اٹھارہویں پارے تک چلا گیا ہے۔ ان سورتوں میں ایک جیسے مضامین تکرار کے ساتھ آ رہے ہیں۔ چنانچہ اس یکسانیت کو ختم کرنے اور ایک طرح کا تنوع پیدا کرنے کے لیے ابتدائی دور کی ایک سورت کو یہاں پر رکھا گیا ہے۔ ورنہ مزاج اور اسلوب کے اعتبار سے سورۃ الحجر کی بہت زیادہ مشابہت سورۃ الشعراء کے ساتھ ہے۔ واللہ اعلم!

            یہاں پر سورۃ الحجر کی ایک آیت کو تیرہویں پارے میں اور باقی سورت کو چودہویں پارے میں دیکھ کر پاروں کی تقسیم کی بنیاد اور اس کے طریق کار کے بارے میں بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر یہ بات اہم ہے کہ یہ تقسیم صحابہ کے زمانے میں نہیں تھی، بلکہ بعد میں کی گئی، اور بغرضِ تلاوت قرآن مجید کو تیس برابر اجزاء میں تقسیم کردیا گیا، تاکہ روزانہ ایک پارے کی تلاوت سے مہینے بھر میں قرآن ختم کر لیا جائے۔ بہر حال اس تقسیم میں کوئی خاص حکمت نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس میں مضمون کے تسلسل کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس تقسیم میں جابجا سورتوں کی فصیلیں ٹوٹتی نظر آتی ہیں۔ کئی مقامات پر کسی سورۃ کی چند آیات ایک پارے میں اور باقی سورۃ اگلے پارے میں شامل کی گئی ہے۔ جیسے سورۂ ہود کی ابتدائی پانچ آیات گیارہویں پارے میں ہیں جبکہ باقی پوری سورت بارہویں پارے میں ہے۔ اس کے برعکس قرآن حکیم کی منازل کی تقسیم صحابہ کے دور میں ہوئی اور اس تقسیم میں بڑا حسن نظر آتا ہے۔ 

UP
X
<>