May 18, 2024

قرآن کریم > الـعلق >sorah 96 ayat 12

أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى

یا تقویٰ کا حکم دیتا ہو، (تو کیا اُسے روکنا گمراہی نہیں ؟)

آيت 12: أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى: «يا وه تقوى كى تعليم ديتا!»

          جيسا كه سورة الليل كى آيت 10 كے ضمن ميں بھى ذكر هوچكا هے كه ابو جهل كے كردار ميں بهت سى مثبت خصوصيات بھى پائى جاتى تھيں۔ مثلا وه مال خرچ كرنے ميں هميشه پيش پيش رهتا تھا۔ اس كے علاوه وه صاف گو بھى تھا۔ اپنے ايمان نه لانے كى وجه بتاتے هوئے اس نے بالكل كھرى اور سچى بات كهى تھى كه ميں محمد (صلى الله عليه وسلم) كو جھوٹا نهيں سمجھتا ليكن همارے خاندان نے چوں كه غرباء كو كھانا كھلانے اور حاجيوں كى خدمت كرنے ميں هميشه بنو هاشم كا مقابله كيا هے، اس ليے اب ميں محمد (صلى الله عليه وسلم) كى نبوت كى شهادت دے كر اپنے حريف خاندان كى بڑائى تسليم نهيں كرسكتا۔ وه جرى اور بهادر ايسا تھا كه نزع كے وقت بھى اس نے هار نهيں مانى اور ميدان بدر ميں اپنا سر قلم كرنے والے شخص كو مخاطب كركے يه كهنا ضرورى سمجھا كه اس كى گردن كو ذرا نيچے سے كاٹا جائے تاكه سر نيزے پر چڑھے تو اونچا نظر آئے۔ بهر حال شخصى اعتبار سے وه حضرت عمر فاروق رضى الله عنه كى طرح بهادر، نڈر، بے باك اور صاف گو انسان تھا۔ اگر وه ايمان لے آتا تو يقيناً حضرت عمر فاروق رضى الله عنه هى كى طرح اعلى پائے كا مسلمان هوتا۔ ليكن جب وه (صَدَّقَ بِالْحُسْنَى) (الليل) يعنى تصديقِ حق كى گھاٹى عبور كرنے ميں ناكام رها تو اس كے كردار كى بهت سى مثبت خصوصيات بھى اس كے كام نه آسكيں۔

UP
X
<>