May 18, 2024

قرآن کریم > عبس >sorah 80 ayat 12

فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ

اب جو چاہے، اُسے یاد کرلے

آيت 12: فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ: «تو جو چاهے اس سے نصيحت اخذ كرلے۔»

        آپ صلى الله عليه وسلم ان لوگوں كے پيچھے خود كو هلكان نه كريں، اگر ابوجهل اور ابولهب اس هدايت سے مستفيد نهيں هونا چاهتے تو نه هوں آپ صلى الله عليه وسلم ان كى پروا نه كريں۔ يه مضمون قرآن مجيد ميں بهت تكرار كے ساتھ آيا هے۔ جيسے سورةُ الكهف ميں فرمايا گيا:

(وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا)

        «اور اپنے آپ كو روكے ركھيے ان لوگوں كے ساتھ جو اپنے رب كو پكارتے هيں صبح و شام، وه الله كى رضا كے طالب هيں اور آپ صلى الله عليه وسلم كى نگاهيں ان سے هٹنے نه پائيں، (جس سے لوگوں كو يه گمان هونے لگے كه) آپ صلى الله عليه وسلم دنيوى زندگى كى آرائش و زيبائش چاهتے هيں! اور مت كهنا مانيے ايسے شخص كا جس كا دل هم نے اپنى ياد سے غافل كر ديا هے اور جو اپنى خواهشات كے پيچھے پڑا هے اور اس كا معامله حد سے متجاوز هوچكا هے۔»

        ظاهر بات هے كه رسول الله صلى الله عليه وسلم كا سردارانِ قريش كى طرف التفات (معاذ الله، ثم معاذ الله!) كسى ذاتى غرض كى وجه سے تو نهيں تھا بلكه آپ صلى الله عليه وسلم اسلام كى تقويت كے ليے ان كے قبول اسلام كے آرزو مند تھے۔ ليكن ان كى موجودگى ميں اپنے كسى ساتھى سے بے اعتنائى لوگوں كو اس غلط فهمى ميں مبتلا كر سكتى تھى كه آپ صلى الله عليه وسلم ان لوگوں كى دولت وثروت كى وجه سے ان كى طرف ملتفت هيں اور اپنے نادار ساتھيوں سے مغايرت برت رهے هيں۔

        اگلى آيت عظمت قرآن كے ذكر كے حوالے سے پورے قرآن ميں منفرد اور ممتاز حيثيت كى حامل هيں۔ سياق و سباق كے حوالے سے ديكھا جائے تو ان آيات كے بين السطور ميں يه پيغام بھى هے كه اے نبى صلى الله عليه وسلم! آپ فريضه رسالت كى ادائيگى كے ليے ان «بڑے لوگوں» كے پيچھے اپنے آپ كو جس انداز ميں هلكان كررهے هيں اور يه لوگ جس «بے نيازى» سے قرآن كو نظر انداز كررهے هيں اس سے قرآن كے استخفاف كا پهلو بھى نكلتا هے۔ لهذا آپ صلى الله عليه وسلم ان لوگوں كے پيچھے پڑ كر انهيں دعوت مت ديں۔ ظاهر هے يه پيغام قيامت تك كے داعيان حق كے ليے بھى هے۔ اس ضمن ميں سمجھنے كا اصل نكته يه هے كه گو معاشرے كے صاحب حيثيت لوگوں كا كسى جماعت ميں شامل هونا اس جماعت كے مشن كى ترويج و ترقى كے ليے بهت مفيد هے، ليكن ايسے لوگوں كو خصوصى اهتمام سے دعوت دينے اور پھر خصوصى اهتمام سے اپنى جماعت ميں خوش آمديد كهنے كا انداز ايسا نهيں هونا چاهيے جس سے اپنے «نظريے» كى بے توقيرى كا تاثر ملے يا پرانے كاركنوں كے دلوں ميں مغايرت كا احساس پيدا هو۔ لهذا كسى بھى جماعت كے امير كے ليے اصولوں پر سمجھوته كيے بغير صاحب حيثيت لوگوں كو اپنى جماعت كى طرف راغب كرنے كى كوشش در اصل اس پل صراط پر چلنے كے مترادف هے جس كے بارے ميں كها جاتا هے كه وه بال سے باريك اور تلوار كى دھار سے زياده تيز هے۔ يه ايسے هى هے جسے خود دارى اور تكبر كے درميان يا خوش اخلاقى اور خوشامد كے مابين بهت باريك سا فرق هے، ليكن اگر كوئى انسان اس باريك سے فرق كو ملحوظ نه ركھے تو اس كى ايك بهت اعلى صفت كو لوگ اس كى بهت بڑى خامى پر بھى محمول كرسكتے هيں۔ لهذا حكمتِ تبليغ كا تقاضا يهى هے كه ايسے حساس فرض كى ادائيگى دو انتهاؤں كے درميان رهتے هوئے بهت محتاط انداز ميں سر انجام دى جائے۔

UP
X
<>