May 3, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 11

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ 

یاد کرو جب تم پر سے گھبراہٹ دور کرنے کیلئے وہ اپنے حکم سے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا، اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا، تاکہ اُس کے ذریعے تمہیں پاک کرے، تم سے شیطان کی گندگی دور کرے، تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے، اور اُس کے ذریعے (تمہارے) پاؤں اچھی طرح جمادے

آیت 11: اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہ: ’’یاد کرو جبکہ اللہ تمہاری تسکین کے لیے تم پر نیند طاری کر رہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا تا کہ اس سے تمہیں پاک کرے‘‘

            بدر کی رات تمام مسلمان بہت پر سکون نیند سوئے اور اسی رات غیر معمولی انداز میں بارش بھی ہوئی۔ مسلمانوں کی یہ پر سکون نیند اور بارش کا نزول گویا دو معجزے تھے‘ جن کا ظہور مسلمانوں کی خاص مدد کے لیے عمل میں آیا۔ یہ معجزات اس انداز میں ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے باقاعدہ ان کے بارے میں اعلان فرمایا ہو‘ یا یہ کہ یہ بالکل خرقِ عادت واقعات ہوں‘ بلکہ یہ معجزات اس انداز میں تھے کہ اس وقت ان دونوں واقعات سے مسلمانوں کو غیر معمولی طور پر مدد ملی‘ اور اس لیے بھی کہ ایسی چیزیں محض اتفاقات سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں۔ حقیقت میں غزوه بدر کا یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھا‘ جس کی وجہ سے ہر شخص کے لیے بظاہر فکرمندی‘ تشویش اور اندیشہ ہائے دوردراز کی انتہا ہونی چاہیے تھی، کہ کل جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں میں زندہ بھی بچ پاؤں گا یا نہیں؟ مگر عملی طور پر یہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ مسلمان رات کو آرام و سکون کی نیند سوئے اور صبح بالکل تازہ دم اور چاق و چوبند ہو کر اٹھے۔ اسی طرح اس رات جو بارش ہوئی وہ بھی مسلمانوں کے لیے اللہ کی تائید و نصرت ثابت ہوئی۔ اس بارش سے دوسرے فوائد کے علاوہ مسلمانوں کو ایک یہ سہولت بھی میسر آ گئی کہ جن لوگوں کو غسل کی حاجت تھی انہیں غسل کا موقع مل گیا۔

             وَیُذْہِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ: ’’اور تاکہ دُور کر دے تم سے شیطان کی (ڈالی ہوئی) نجاست کو اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جما دے۔‘‘

            اس بارش میں مسلمانوں کے لیے اطمینانِ قلوب کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انہیں اس خشک صحرا کے اندر پانی کا وافر ذخیرہ مل گیا‘ ورنہ لشکر قریش پہلے آ کر پانی کے تالاب پر قبضہ کر چکا تھا اور مسلمان اس سے محروم ہو چکے تھے۔ بارش ہوئی تو نشیب کی بنا پر سارا پانی مسلمانوں کی طرف جمع ہو گیا‘ جسے انہوں نے بند وغیرہ باندھ کر ذخیرہ کر لیا۔ بارش کی وجہ سے مٹی دب گئی‘ ریت فرش کی طرح ہو گئی اور چلنے پھرنے میں سہولت ہو گئی۔ 

UP
X
<>