May 19, 2024

قرآن کریم > الـمعارج >sorah 70 ayat 2

لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ

 جو کافروں پر آنے والا ہے، کوئی نہیں ہے جو اُسے روک سکے 

آيت 2: لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ: «كافروں كے ليے، جس كو كوئى ٹال نه سكے گا۔»

[نوٹ: اس مقام پر جمهور مفسرين كى رائے حضرت شاه صاحب اور محترم ڈاكٹر صاحب رحمهما الله كى رائے سے مختلف هے۔ بعض مفسرين نے يهاں «سأل» كو دريافت كرنا كے معنى ميں ليا هے۔ ان كے نزديك آيت كا مفهوم يه هے كه پوچھنے والے نے پوچھا هے كه وه عذاب جس كى هميں خبر دى جارهى هے، كن لوگوں پر نازل هوگا؟ تو اس سوال كا جواب ديا گيا كه وه كفار پر نازل هوگا اور جب نازل هوگا تو كوئى اس كو ٹال نهيں سكے گا۔ ليكن اكثر مفسرين نے اس جگه «سأل» كو مانگنے اور طلب كرنے كے معنى ميں ليا هے۔ ان كے نزديك ان الفاظ ميں نضر بن حارث كى اس دعا كى طرف اشاره هے جو سورة الانفال ميں بايں الفاظ بيان هوئى هے: (اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ) «اے الله! اگر يه (قرآن) تيرى هى طرف سے برحق هے تو برسا دے هم پر پتھر آسمان سے يا بھيج دے هم پر كوئى درد ناك عذاب۔» مزيد برآں قرآن حكيم ميں متعدد مقامات پر كفار مكه كے اس چلنج كا ذكر كيا گيا هے كه جس عذاب سے آپ هميں ڈراتے رهتے هيں وه لے كيوں نهيں آتے۔ اس مطالبے كا جواب يه ديا گيا كه وه عذاب كفار كے ليے تيار هے، وه ضرور انهيں چكھايا جائے گا، ليكن اپنے وقت پر۔ اور جب وه مقرره گھڑى آجائے گى تو دنيا كى كوئى طاقت اس عذاب كو ٹال نهيں سكے گى۔ (حاشيه از مرتب)]

          يهاں سأل سائل سے كون مراد هے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان بهت اختلاف پايا جاتا هے۔ ميرى رائے بهت پهلے سے يه تھى كه يه عذاب طلب كرنے والے خود حضور صلى الله عليه وسلم هيں، ليكن مجھے اپنى رائے پر اطمينان اس وقت هوا جب مجھے معلوم هوا كه شاه عبد القادر دهلوى كى رائے بھى يهى هے۔ عام مفسرين ميں سے بهت كم لوگ شاه صاحب كى اس رائے سے متفق هيں كه اس آيت ميں حضور كى خواهش يا دعا كا ذكر هے۔

          اس آيت كو سمجھنے كے ليے در اصل اس دور كا نقشه ذهن ميں لانا ضرورى هے جب حضور پر طرح طرح كے الزامات كى بوچھاڑ هو رهى تھى اور مكے كى گليوں ميں آپ كو شاعر، مجنون، ساحر اور كذاب جيسے ناموں سے پكارا جارها تھا (معاذ الله)۔ اعلان نبوت كے بعد تين سال تك تو يوں سمجھيے كه پورے شهر كى مخالفت كا نشانه صرف حضور صلى الله عليه وسلم كى ذات تھى۔ مشركين كا خيال يه تھا كه اگر وه آپ كى قوت ارادى اور همت توڑنے يا كسى نه كسى طريقے سے آپ كو آپ كے مؤقف سے هٹانے ميں كامياب هوگئے تو يه تحريك خود بخود ختم هو جائے گى۔ چناں چه اس دور ميں عام اهل ايمان كو نظر انداز كركے صرف آپ كى ذات كو نشانے پر ركھا گيا تھا۔ اس دوران اگر چه آپ كو كوئى جسمانى اذيت تو نه پهنچائى گئى ليكن باقاعده ايك منظم مهم كے تحت آپ كے خلاف ذهنى، نفسياتى اور جذباتى تشدد كى انتها كردى گئى۔ ان لوگوں كى اس مذموم مهم كى وجه سے حضور مسلسل ايك كرب اور تكليف كى كيفيت ميں تھے۔ اس كا اندازه ان الفاظ اور جملوں سے بھى هوتا هے جو اس دور ميں نازل هونے والى سورتوں ميں آپ كى تسلى كے ليے جگه جگه آئے هيں۔

          بهر حال حضور بھى تو آخر انسان هى تھے۔ مسلسل شديد ذهنى اذيت كا سامنا كرتے هوئے رد عمل كے طور پر آپ كے دل ميں ايسى خواهش كا پيدا هونا ايك فطرى امر تھا كه اب ان لوگوں پر الله كا عذاب آجانا چاهيے۔ چناں چه ان آيات ميں آپ كى اسى خواهش يا دعا كا ذكر هے۔ اس حوالے سے يهاں يه نكته بھى مد نظر رهے كه اس سورت كا سوره نوح كے ساتھ جوڑے كا تعلق هے اور سوره نوح ميں بھى حضرت نوح كى اس دعا كا ذكر هے جس ميں آپ نے الله تعالى سے اپنى قوم كے ليے سخت عذاب مانگا تھا۔ گويا ان دونوں سورتوں كے اس مضمون كا آپس ميں گهرا تعلق هے۔ اس تعلق ميں يه مناسبت بھى بهت اهم هے كه حضرت نوح عليه السلام پهلے رسول اور حضور صلى الله عليه وسلم آخرى رسول هيں۔

UP
X
<>